Maktaba Wahhabi

76 - 484
صفات سلبیہ اور اضافیہ کی نسبت تو اختلاف نہیں ۔ ہاں حقیقیہ کی نسبت یہ اختلاف ہے کہ ان کا مفہوم مفہوم ذات کا عین ہے یا اس سے کوئی زائد امر ہے۔ مثبتین صفات (اہلسنت اور ان کے موافقین) کہتے ہیں کہ ان صفات کا مفہوم ذات واجب تعالیٰ کے مفہوم پر زائد ہے۔ اور اسم اللہ ذات بحث کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ذات مع صفات کا نام ہے۔ ہاں وہ عین ذات بھی نہیں ہیں کہ ان کو خدا سمجھ لیا جائے۔ اور غیر بھی نہیں کہ ذات برحق کو ان سے مجردو خالی مانا جائے۔ چونکہ کوئی ذات جو علم و قدرت و حیات و سمع و بصر و ارادہ و کلام۔ صفات کمال سے خالی ہو خارج میں اس کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ وہ اللہ ہو سکتی ہے۔ اور نہ مستحق عبادت۔ قرآن شریف میں جا بجا انہی صفات کی نفی سے باطل معبودوں کی تردید کی گئی ہے۔ جہمیّہ اور ان کی موافقین شیعہ اور معتزلہ کہتے ہیں کہ خدا کہ یہ صفات اس کی عین ذات ہیں اور مفہوم ذات سے زائد کوئی چیز قدیم نہیں ہے۔ ورنہ تعدد قدما لازم آئے جب ذوات متعدد ہوں ۔ ذات واحد ہو۔ اور اس کی صفات کثرت سے ہوں تو تعدد قدما کہاں ہوا فافہم۔ پس صحیح یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ساتھ قدیم ہے۔ اور اس میں کوئی دقت نہیں ۔ یہ ہے اقرار بالصفات اور انکار بالصفات کے متعلق مختصر تشریح جو ہم نے بہت سی کتب کلامیہ کی ورق گردانی اور ان میں غور و خوض کرنے سے سمجھی ہے۔ واللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال۔ رجوع بمطلب: اس نزاع نے ایک دوسرے کی تکفیر تک نوبت پہنچائی اور ملکی فتنہ کی آگ میں ہیزم کشی کا کام دیا۔ جس کی تفصیل مختصراً درج ذیل ہے۔ تتمۂ فرقہ مرجیہ: تاریخی سلسلہ کے ضمن میں فرقہ مرجیہ کی ابتدا اور اس کے بانی اور اس کے مختلف مسائل کی نسبت کہ ارجاء کا اطلاع بحسب لغت کس کس مسئلہ پر آسکتا ہے۔ مختصراً ذکر ہو چکا ہے اور یہ بھی گذر چکا ہے کہ اس کی بعض صورتیں ائمہ اہل
Flag Counter