Maktaba Wahhabi

75 - 484
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ () وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (سورہ اخلاص پ۳۰) ’’یعنی نہ خدا نے کسی کو جنا اور نہ وہ خود کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے۔‘‘ صفات وجودیہ سے یہ مراد ہے کہ ذات باری جل مجدہ کو جملہ صفات کمال سے موصوف سمجھا جائے یہ بھی دو قسم پر ہیں صفات افعال کہ ان کا ظہور بالفعل مخلوق کے ظہور و وجود سے ہے۔ مثلا خالقیت کہ اس کا ظہور بالفعل اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شے مخلوق ہو جائے اور ربوبیت کہ اس کا ظہور شے مربوب کو چاہتا ہے۔ ایسی صفات کی دو جہتیں ہیں ۔ ایک جہت ذات برحق کی نعت و صفت ہونے کے لحاظ سے۔ اور دوسری مخلوق سے متعلق ہونے کے لحاظ سے۔ ذات خداوندی سے تو اس کا تعلق حادث نہیں یعنی ایسا کوئی وقت نہیں تھا کہ ذات برحق اس سے مجرد محض ہو۔ اسی معنی میں امام الائمتہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فقہ اکبر میں فرمایا۔ کان اللّٰہ خالقا قبل ان یخلق ’’یعنی خدا پیدا کرنے سے پہلے بھی خالق تھا۔‘‘ امام غزالی رحمہ اللہ نے اقتصاد میں اس امر کو بہت صفائی سے بیان کیا ہے۔ باقی رہی دوسری جہت ۔ یعنی مخلوق کے ساتھ اس صفت کا تعلق۔ سو وہ حادث ہے یعنی جب خدا نے چاہا کہ کہ کسی شے کو ہستی میں لائے۔ تو اپنی صفت خالقیت کو اس شے کی صورت علمیہ کے متعلق کر دیا جو اس کے علم ازلی میں ہے اور اس کو موجود بالفعل کر دیا۔ پس یہ تعلق اور متعلق بہ ہر دو حادثات ہوئے نہ کہ صفت الٰہی۔ اسی قسم میں سے بعض اضافی ہیں مثلاً هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ (سور حدید پ۲۷) دوسری قسم صفات وجودیہ کی صفات ازلیہ ہیں ۔ ان کو ذاتیہ‘ حقیقیہ اور قدیمہ (مطلقاً) بھی کہتے ہیں ۔ مثلاً علم‘ قدرت اور حیات کہ ان کا انفکاک ذات بیچوں سے نہ کبھی ہوا۔ نہ ہو سکے یعنی وہ ہمیشہ سے ان صفات سے موصوف ہے اور ہمیشہ موصوف رہے گا۔
Flag Counter