بصرہ میں حصرت حسن بصری[1]اور یمن میں طاؤس بن کیسان[2]اور شام میں مکحول[3]رحمتہ علیہ۔
اسی طرح اختلاف کے بہت سے اسباب ہیں جو حجتہ اللہ‘ انصاف‘ رفع الملام (لابن تیمیہ رحمہ اللہ ) وغیرہ کتب میں مفصل مذکور ہیں ۔ بعض کی بنا ’’فہم کلام‘‘ پر ہے اور بعض کی تعیین مسلم پر اور بعض کی تبیین مجمل پر۔ اور بعض کی اصول تنقید پر اور بعض کی شروط اعتبار پر (ان امور کو فقہ اور حدیث کے جامع و ماہر علماء خوب جانتے پہچانتے ہیں )
غرض صحابہ و تابعین کے اختلاف میں الحادو بے دینی‘ کجروی و بد اعتقادی‘ اتباع ہویٰ و بدمذہبی نہیں ہے۔ اور اگر حدیث اختلاف امتی رحمۃ کا اعتبار کیا جائے تو اس کی بس یہی صورت ہے جو صحابہ و تابعین میں تھی۔ اور ائمہ مجتہدین کا اختلاف بھی اسی پر مبنی ہے واللہ الھادی۔
مشہور ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمع کر لینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جس کی طرف رجوع کر کے اختلافی امور میں فیصلہ کیا جائے۔ یا مختلف روایتوں میں جمع و تطبیق کی جائے۔ یا ان میں ترجیح یا نسخ کا حکم لگایا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ یہ امور بغیر جمع احادیث کے ممکن نہیں تھے۔ لہٰذا عمر بن عبد العزیز خلیفہ نے اپنے عہد خلافت[4]میں اپنے استاد امام ابن شہاب زہری سے کہا تو انہوں نے
|