فروعی اختلاف اور مذاہب اربعہ
اصولی و اعتقادی اختلاف کے علاوہ فروعی اختلاف بھی ہوا۔ جس کا بیان ہمارا خاص مطلب و مقصد ہے۔ اس کی نسبت یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب فتوحات اسلامیہ تمام علوم میں ہر چہار طرف بڑھ گئیں اور کوئی شے اس سیل رواں کی مزاحمت نہ کر سکی۔ تو فاتحین یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مختلف شہروں میں منتشر ہو گئے۔ یہ مقدس جماعت تبلیغ و اشاعت دین کی شیدائی تو تھی ہی۔ سلطنت کے ساتھ ساتھ دائرہ مذہب کو بھی اتنا وسیع کرتے گئے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ایران‘ توران‘ شام‘ مصر اور افریقہ میں اسلام ہی اسلام نظر آنے لگا۔ پس ہر صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف احوال میں جو کچھ آپ سے دیکھا سنا تھا۔ لوگوں سے بیان کیا۔ جس سے ہر علاقہ کے لوگوں میں زیادہ تر انہی روایات کا رواج ہوا جوان کو ان صحابہ کے ذریعے سے پہنچیں ۔ جو وہاں سکونت پذیر تھے۔ مثلاً اہل کوفہ کہ انہوں نے زیادہ تر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ متوطنین کوفہ کی روایات پر اعتماد کیا۔ اور اہل مدینہ طیبہ کہ ان کی بیشتر روایات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ وغیرھم ساکنین مدینہ طیبہ سے ہیں ۔ اور اہل مکہ کہ ان کو اکثر روایات حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ساکنین مکہ شریف سے ہیں ۔
اسی زمانہ تک علم حدیث کتابی صورت میں مدون نہیں ہوا تھا۔ کہ ہر علاقہ کی روایات ایک جگہ جمع ہو جاتیں ۔ اور نہ تنقید و جمع روایات کے اصول و قواعد منضبط ہوئے تھے کہ تطبیق و ترجیح وغیرہ کے لحاظ سے اختلاف حل کر لیا جاتا۔ بلکہ ہر علاقہ کے لوگوں نے اپنے ہاں کے صحابہ رضی اللہ عنہ کو مقتدا جان کر ان کی روایات و طریق عمل پر قناعت کی۔ قطع نظر اس سے کہ دوسرے علاقہ کے صحابی نے اس امر میں کیا روایت کیا۔ یا اس کا اپنا قول و عمل اس کے متعلق کیا ہے۔ اور یہ اختلاف محض فروع میں تھا۔ کیونکہ صحابہ میں
|