آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے ہوئے۔ اس لئے وہ فرقے بھی جدید ہیں اور حقیقت میں انہی لوگوں نے دین واحد میں فرقہ بندی کی اور ایک امت کو کئی فرقوں میں تقسیم کر دیا۔
’’ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ‘‘
(المومنون پ۱۸)
’’(انبیائے سابقین علیہم السلام کے بعد ان کے) امتیوں نے امر دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ہر گروہ اسی پر نازاں ہوا جو ان کے ہاں (مسلم) تھا۔‘‘
تنبیہ :۔
چونکہ علم حدیث کی کامل تدوین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت عرصہ پیچھے ہوئی۔ یعنی آپ کے افعال و اقوال کو کتابی صورت میں آپ کے بعد ضبط کیا گیا۔ اس لئے بعض لوگ یہ شبہ کرتے ہیں کہ اہل حدیث بھی آپ کے بعد ہوئے۔ نیز یہ کہ حدیث نبوی کی پیروی بھی بعد میں کی جانے لگی۔ یہ لوگ نکتہ رسی سے کوسوں دور ہیں ۔ اور یہ بات ان کی غلط فہمی کی علامت اور حدیث پاک سے بدظنی کی نشانی ہے کیونکہ کسی علم کا مستعمل و رائج ہونا امر دیگر ہے اور اس کا کتابی صورت میں مدون ہونا امر دیگر ہے۔ علم حدیث ہی پر کیا موقوف ہے۔ جملہ علوم و فنون کی تدوین اور ان کے تعلیمی و کتابی قواعد کی بنا ان کے رواج و استعمال کے بعد ہوئی اب تو ہر پیشہ کتابی صورت اختیار کر رہا ہے۔ کیا کوئی عقلمند اس سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ یہ علوم و فنون اور پیشے و دستکاریاں جو دنیا میں فن کتابت جاری ہونے سے بھی پہلے کے ہیں ۔ مثلا زباندانی و منطق (نطق ظاہری و ادراک باطنی) نئے ہیں ۔ حالانکہ ان کے قواعد و مصطلحات سینکڑوں برس بعد بنائے گئے۔ پس اگرچہ علم حدیث مکمل کتابی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آیا۔ اور اس کے اصول و مصطلحات پیچھے لکھے گئے۔ لیکن اس کا استعمال اور اس پر عمل درآمد اور اس کا واجب الاتباع ہونا زمانہ نبوت اور عصر صحابہ میں برابر تھا۔ جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ تو اسی عہد سعادت مہد اور زمان برکت نشان کے واقعات کی حکایت ہے اور بس۔ مثلاً نماز وغیرہ عبادات اور معاملات احکام جو کتب حدیث میں مروی ہیں ۔
|