منسوب الیہ کے بعد موجود ہو اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی نسبت اپنے منسوب الیہ سے پیشتر قائم ہو جائے۔ کیونکہ نسبت ایک وصف ہے اور منسوب الیہ موصوف ہے اور کسی وصف کا قیام بغیر موصوف کے نہیں ہو سکتا۔ منسوب الیہ خواہ کوئی خاص شخص ہو یا مقام فن یا قوم مثلاً نبی آدم حضرت آدم علیہ السلام کی طرف منسوب ہو کر آدمی کہلاتے ہیں تو ان کا وجود حضرت آدم علیہ السلام سے پیشتر نہیں ہو سکتا۔ پس اہلحدیث جو سب نسبتوں سے منقطع ہو کر صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک کی طرف منسوب ہیں ان کی جدت و قدامت کے لئے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نظر کی جاوے گی کہ اس کی ابتداء کب سے ہے جس کی بنا پر وہ فخریہ کہتے ہیں ۔ع
کسی کا ہو رہے کوئی نبی کے ہو رہے ہیں ہم
اس میں تو کسی کو بھی کلام نہیں کہ علم حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و تقاریر کا مجموعہ ہے اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمان برکت نشان ہی میں ہو سکتے ہیں ۔ پس گروہ اہل حدیث انہیں پاک لوگوں کے نام لیوا و جانشین ہیں ۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ کے اقوال و افعال پر عمل پیرا تھے اور اس میں بھی کسی کو کلام نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صرف کتاب اللہ اور آپ کے اقوال و افعال کی پیروی تھی۔ نہ تو کسی کی رائے پر عمل تھا اور نہ کسی کے قیاسی اصول پر شرعیات کی بنا رکھی جاتی تھی۔ اور خود منصب رسالت پر نظر کرنے سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آپ کے سوا کوئی دوسرا شخص واجب الاتباع ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اب قرآن مجید تو وہی ہے اور سب فرقوں میں یکساں مسلم ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی بجائے آپ کے وہی اقوال و افعال جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہ کے سامنے فرمایا اور کیا کرتے تھے کتب حدیث میں جمع ہیں ۔ اور ہمارے دستور العمل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل حدیث بالتخصیص حدیث نبوی کو اپنا منسوب الیہ قرار دیتے ہیں ۔
اہل حدیث کے سوا جس قدر فرقے ہیں ۔ چونکہ ان کے منسوب الیھم (پیشوا)
|