گیا اور امت میں ایک عظیم تہلکہ مچ گیا۔ مثلاً شیعہ کو اصل میں یہ اس گروہ کا نام تھا۔ جو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حامی تھا اور خارجی اس طائفہ کا نام تھا جو امرتحکیم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے الگ ہو کر آپ پر اعتراض کرتا تھا۔[1] لیکن آج وہ معتقدات میں اہل سنت کے مد مقابل ہیں ۔ اور اگر تاریخی سراغ لگائیں تو معلوم ہو گا کہ ’’اہل سنت و جماعت‘‘ کا ممتاز لقب انہی بدعی فرقوں کے مقابلے میں وضع کیا گیا تھا جیسا کہ سابقا معلوم ہو چکا ہے۔
آج کتب حدیث میں سب سے پرانی مؤطا امام مالک ہے۔ امام ہمام کی پیدائش مدینہ طیبہ میں پہلی صدی کے اخیر عشرہ ۹۳ھ میں خلیفہ ولید بن عبد المالک اموی کے عہد میں ہوئی اور وفات مدینہ طیبہ ہی میں عصر بنی امیہ کے بعد ۱۷۹ھ میں خلیفہ ہارون الرشید عباسی کے زمانہ میں ہوئی۔ اس وقت تک علم اسلامی تمام شمالی افریقہ کو فتح کر کے سپین وغیرہ ممالک یورپ میں لہرا رہا تھا۔ امام مالک رحمہ اللہ کا فیض حدیث ان تمام ممالک اسلامیہ میں پہنچ چکا تھا۔ چنانچہ مؤطا کا آخری نسخہ عام طور پر متد اول ہے یحییٰ بن یحییٰ مصمودی کی روایت سے ہے۔ جو امام مالک رحمہ اللہ کے بلا واسطہ شاگرد تھے۔ اور اہل سپین سے تھے۔ موطا میں فرقہ بندی کا ذکر نہیں ہے اور نہ اس میں مسائل کا بیان بطور تردید فرقہ کے ہے۔
(۱) امام مالک کے لائق شاگردوں میں سے ایک امام شافعی رحمہ اللہ ہیں جو ۱۵۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۲۰۴ھ میں فوت ہوئے جس سے زمانہ تبع تابعین ختم ہو گیا۔ آپ اپنے سفر نامہ مولفہ امام سیوطی میں جو آپ نے اپنے شاگرد ربیع بن سلیمان مصری کو املا کرایا تھا فرماتے ہیں ۔
یلقانی الرجال واصحاب الحدیث منہم احمد بن حنبل و سفیان بن عینیہ و اوزاعی رحمہ اللہ (رحلۃ الشافعی ص۱۴)
’’مجھے عام لوگوں بھی ملتے تھے اور اصحاب حدیث بھی جن میں سے بعض یہ
|