نے اصول حدیث کے متعلق بہت کچھ چھان بین کی اور اصول فقہ کی بنیاد ڈالی[1] کہ قرآن و حدیث سے اس طرح استنباط کرنا چاہئے اور مختلف احادیث کو اس طرح جمع کرنا چاہئے۔ اور قرآن شریف کی آیت اور حدیث کو اس طرح جمع کرنا چاہئے۔
پس آپ کا طریق اجتہاد ہر دو مذاہب سے مختلف ہوا۔ تو آپ کا مذہب بھی مستقل مانا گیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی وفات خلیفہ مامون کے عہد میں ۲۰۴ھ میں ہوئی۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ :۔
امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے بعد حدیث بہت منتشر ہو گئی اور تصانیف بھی عام ہوتی گئیں ۔ حتی کہ امام احمد رحمہ اللہ کا زمانہ آیا تو آپ کے پاس اتنا ذخیرہ حدیث جمع ہو گیا۔ کہ کسی کے پاس نہ ہوا تھا۔ انہوں نے صرف روایات کو پیش نظر رکھا۔ اور دائیں بائیں نظر کرنے کی حاجت نہ سمجھی۔ اس لئے خالص احادیث اور آثار کی اتباع کرنے کے سبب آپ کا مذہب الگ گنا گیا۔ چنانچہ حضرت شاہ صاحب حجتہ اللہ میں فرماتے ہیں ۔
وکان اعظمھم شاناو اوسعھم روایۃ واعرفھم للحدیث مرتبۃ واعمقھم فقہا احمد بن حنبل۔[2]
’’سب سے بڑی شان والے اور وسیع روایت والے اور حدیث شریف کے مراتب کو سب سے زیادہ سمجھنے والے اور فقاہت میں سب سے گہرے امام احمد بن محمد بن حنبل ہوئے۔‘‘
امام احمد رحمہ اللہ کی وفات۲۴۰یا ۲۴۱ھ میں ہوئی۔ امام احمد صاحب کے وقت تک علم حدیث کی بہت شہرت ہو گئی۔ تصانیف بھی کثرت سے ہونے لگیں
|