Maktaba Wahhabi

59 - 484
تھے کہ ہم ان امور سے جن میں سب لوگ مبتلا ہیں عافیت میں ہیں ۔‘‘ یہ مضمون دیگر مورخین ابن اثیر و ابن خلدون وغیرہما نے بھی باختصار عبارت بیان کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ابن سبا کا اصل مقصود فتنہ و فساد برپا کرنا اور خلافت کے خلاف ایک انقلاب پسند جماعت کا قائم کرنا تھا۔ جس کے لئے اس نے دو قسم کے کام کئے اول یہ کہ حکام خلافت پر طعن و تشنیع کرنا شروع کیا دوم یہ کہ مسئلہ رجعت و وصیت جاری کیا۔ پہلی قسم یعنی اصلاح و فساد میں تمیز کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے کئی ایک صلحاء بھی اس کے فریب میں آگئے مثلا ابو ذر غفاری جو صحابہ میں بہت بڑے زاہد تھے ان کو زاہدانہ رنگ میں حضرت معاویہ کی بدگوئی کر کے ان سے بدظن کر دیا۔ اور دوسری قسم یعنی جعلی مسائل سے لوگوں کو گمراہ کرنا۔ سو صحابہ میں تو اس کے ساتھ کوئی نہ ہوا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اقوال اور پسندیدہ افعال کا گواہ صحابہ کے سوا دیگر کون ہو سکتا ہے؟ ہاں دیگر لوگوں میں سے بہت سے عوام اس کے دام میں آگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور وصیت خلافت: یہی وہ پہلا موقع تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے وصیت کا مسئلہ گھڑا گیا۔ ورنہ اس سے پہلے صحابہ میں اس کا کبھی ذکر نہیں آیا نہ تو ثقیفہ بنی ساعدہ میں جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت ہوئی۔ نہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنے کے وقت اور نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے چھ شخصوں میں سے ایک کو مقرر کرنے کا حکم دینے کے وقت۔ اور نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنے کے وقت۔ حدیث وصیت کے پیش ہونے کے یہ بہت ضروری مواقع تھے۔ ان میں سے کسی موقع پر بھی اس کا ذکر نہیں آیا۔ یہ حدیث نہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود پیش کی اور نہ کسی دیگر صحابی نے اس کا ذکر کیا۔ سب سے پہلے یہ مسئلہ ابن سبا نے اس امت میں فتنہ ڈالنے کے لئے گھڑا جب چرچا عام ہو گیا۔ اور دو محارب فریقوں میں امر فارق قرار پایا تو یہ بھی تھوڑے عرصہ کے بعد ایک نظریہ ہو گیا۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے
Flag Counter