’’ ان عبارات سے ظاہر ہو گیا کہ اگر شیخ محمد بن عبد الوہاب نے قبر پرستی نذرلغیر اللہ اور ذبح لغیر اللہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب جاننے وغیرھا امور شرکیہ کی بنا پر کسی کو کافر و مشرک کہا ہو تو وہ اس میں منفرد نہیں ہیں ۔ بلکہ سب علمائے حنفیہ مع علامہ شامی کے اس امر میں ان کے ساتھ ہیں پس جو جواب علامہ شامی اور دیگر فقہاء کی طرف سے ہو گا۔ وہی شیخ محمد بن عبد الوہاب کی طرف سے ہو گا۔ لہذا بعد اس امر کے تسلیم کر لینے کے بھی شیخ محمد بن عبد الوہاب نے امور شرکیہ کی بنا پر کسی کو کافر و مشرک کہا ہے شیخ موصوف کو برا نہیں کہہ سکتے۔‘‘
اس کے بعد ہم اصل امر کی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ جس طرح زمانہ کے بعض جہال و حاسد ہمیشہ اہل حق پر افترا باندھتے رہے ہیں ۔ اسی طرح شیخ محمد بن عبد الوہاب پر بھی بوجہ ان کی غیرت حق اور تردید شرک کے باندھے گئے۔ اور خاص ان کی زندگی میں بھی ان پر بہتان لگائے گئے۔ جن کے جواب میں شیخ موصوف نے حرم محترم میں ایک طویل خطبہ میں سب الزامات کو دفع کیا چنانچہ بالخصوص الزام تکفیر مسلمین کو بھی شمار کر کے کہتے ہیں ۔
وانا نکفر الناس علی الاطلاق اھل زماننا ومن بعدست مائۃ الامن ھو علی مانحن علیہ ومن فروع ذلک انا لا نقبل بیعۃ احد الا اذا اقر علیہ بانہ کان مشرکا وان ابویہ ماتا علی الشرک باللّٰہ (اتحاف ص۴۱۵)
’’اور ہم پر ایک بہتان یہ ہے کہ ہم اپنے سوا اپنے زمانے کے سب لوگوں اور چھٹی صدی کے بعد کے سب لوگوں کو کافر جانتے ہیں اور پھر اس کے فروع میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کسی کی بیعت قبول نہیں کرتے مگر اس صورت میں کہ وہ شخص صاف اقرار کرے کہ میں پہلے مشرک تھا اور میرے ماں باپ بھی شرک ہی میں مر گئے۔‘‘
اس کے بعد سب الزامات کے جواب میں مجملاً لاکھ کی ایک ہی بات کہتے ہیں ۔
فجمیع الخرافات وما اشبھھا لما استفھمنا عنہا من ذکر ناکان
|