اسے امت مرحومہ میں ایک فتنہ سمجھا اور اس میں پڑ کر مسلمانوں میں خونریزی درست نہ جانی۔
جنگ صفین اور امر تحکیم:۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی صلح صفائی کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ اور بصرہ کا انتظام کر کے شام کا قصد کیا اور حسب عادت معاویہ رضی اللہ عنہ کو پیغام اطاعت بھیجا۔ لیکن بات نہ بنی تو دونوں لشکروں میں پورے زور کی لڑائی ہوئی۔ آخر فریقین کی قرار داد سے دو حکم مقرر ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ کی طرف سے حضرت عمرو بن عاص فاتح مصر حکم مقرر ہوئے۔
خارجی :۔
اس امر تحکیم پر شیعہ علی رضی اللہ عنہ میں سے ایک بڑی جماعت ناراض ہو کر آپ کی اطاعت سے خارج ہو گئی تو ان کا نام خارجی ہوا۔ ان خوارج میں بعض وہ بھی تھے جنہوں نے کتاب اللہ پر فیصلہ کرنے پر بہت زور دیا تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دھمکی دی تھی کہ اگر آپ اس طریق پر فیصلہ نہ کریں گے تو ہم آپ کے ساتھ وہ سلوک کریں گے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا۔ مثلًا سعر بن فدک تمیمی اور زید بن حصین طائی۔ یہ جماعت کوئی بارہ ہزار تھی اور بموجب ایک روایت کے بڑھتے بڑھتے چوبیس ہزار ہو گئی انہوں نے حضرت علی کے خلاف ان الحکم الا للہ کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سنا تو فرمایاکلمتہ حق ارید بہا الباطل(یعنی یہ کلمہ تو حق ہے لیکن اس سے باطل کا ارادہ کیا گیا ہے یعنی شرارت و فساد کرنا چاہا ہے۔)
صفین سے ہو کر حضرت علی کوفہ میں داخل ہوئے۔ لیکن خوارج آپ کے ساتھ نہ ہوئے بلکہ مقام حرورا پر جمع ہو کر الگ مشورت کرنے لگے۔
جب یہ بھی ایک الگ جماعت بن گئی۔ تو شیعہ علی دو گروہ ہو گئے۔ ایک شیعہ جو آپ کے ساتھ رہے دوسرے خارجی جو آپ سے الگ ہو کر آپ کی اطاعت سے خارج ہو گئے۔
اب امت مرحومہ کے چار گروہ ہو گئے۔ عثمانی‘ شیعہ‘ خارجی اور غیر جانبدار۔
|