ان احادیث پر عمل کیا۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے وقت کے لئے فرمائی تھیں مثلاً
قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول ستکون فتنۃ القاعد فیہا خیر من القائم والقائم خیر من الماشی والماشی خیر من الراکب والمسلمون اخوان دماؤھم واموالھم حرام۔[1]
’’کہا اس نے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ عنقریب ایسا فتنہ اٹھے گا کہ گھر میں بیٹھ رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہو گا۔ اور پیدل چلنے والا سوار سے بہتر ہو گا۔ اور مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ ان کے خون اور مال حرام ہیں ‘‘۔[2]
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کا مضمون امام ابن ماجہ نے خود حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے اور دیگر محدثین مثل امام بخاری و امام مسلم وغیرہما نے دیگر صحابہ سے بھی روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ قائم ہونے کی خبر دی تھی اور اس میں شریک نہ ہونے کی تاکید بھی کی تھی۔ لیکن ہم وہ سب احادیث بخوف طوالت درج نہیں کر سکتے۔
حضرت ابو موسیٰ اسی غیر جانبداری کی وجہ سے حکومت کوفہ سے الگ ہو گئے۔ لیکن فتنہ میں شریک نہ ہوئے۔[3]
ان اصحاب کے علاوہ دیگر اصحاب بھی بکثرت تھے جو اس فتنہ اور اس سے بعد کے فتنہ میں شریک نہیں ہوئے مثلاً عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ‘ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ‘ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ‘ جندب بن عبد اللہ بخلی رضی اللہ عنہ ‘ ابو مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین۔
غرضیکہ صحابہ کی ایک بڑی جماعت اسی وجہ سے غیر جانبدار رہی کہ انہوں نے
|