ہوئے۔[1]
خود ابوبکر تابعی ہیں خلیفہ عمر بن عبدالعزیز اور پھر خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کی طرف سے مدینہ منورہ پر امیر و قاضی‘ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں علم قضا میں ابوبکر بن محمد کے برابر کوئی نہیں تھا۔ اور یہ بھی کہا کہ میں نے ابوبکر کی مثل صاحب مروت و صاحب حال کسی کو نہیں دیکھا۔[2]
خود ابوبکر اور ان کے دونوں بیٹے محمد اور عبداللہ مدینہ منورہ کے صاحب فتویٰ علماء میں سے تھے۔[3]۱۲۰ھ میں چوراسی سال کی عمر میں فوت ہوئے رحمہ اللہ۔
ابوبکر بن حزم کے ان کوائف کے ذکر سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب العہد تھے مہبط وحی مرکز اسلام مہد خلافت اور مرجع علم یعنی مدینہ منورہ کے رہنے والے۔ اور پھر اسی میں حاکم تھے۔ وہاں علماء صحابہ و کبار تابعین کے صحبت یافتہ تھے۔ علم والے گھرانے سے تھے۔ صاحب لیاقت و صاحب صلاحیت اور باہمت و مروت تھے۔ فقہائے مدینہ میں مسلم صاحب فتویٰ عالم تھے۔ خصوصا ًخلیفہ عمر بن عبدالعزیز ایسے علم دوست اور مردم شناس خلیفہ کا ان کو اس خدمت پر متعین کرنا۔ ان کی لیاقت و قابلیت کے سونے پر سہاگے کا کام دیتا ہے۔
پس انہوں نے اس خدمت کو باثر عہدہ گورنری و قضا باحسن وجوہ انجام دیا۔ فجزاہ اللّٰہ عنا و عن سائر اھل الحدیث جزاء حسنا۔
مدینہ منورہ اور فقہائے سبعہ:۔
مدینہ منورہ ان دنوں علم اسلامی (قرآن و حدیث) کا مرکز و مجمع تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خلفائے ثلاثہ تک اسلامی سلطنت کا درالسلطنت یہی پاک زمین تھی۔ اس میں ان کے جو سیاسی فرامین اور شرعی احکام و قضا یا نافذ ہوتے تھے۔ وہ علمائے مدینہ کو ہمیشہ از بر اور پیش نظر تھے۔ بڑے بڑے قابل اور
|