بستان المحدثین سیر الشہاد تین عجالہ نافعہ اور بہت سے فتاوی ہیں ۔[1]
آپ نے ۱۲۳۹ھ میں وفات پائی۔ شعرا و علماء نے آپ کی وفات کی تاریخیں لکھیں آپ کو اپنے پدر بزرگوار کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔
آپ کا خاندان علوم حدیث اور فقہ حنفی کا ہے۔ علم حدیث کی جو خدمت ملک ہند میں اس خاندان نے کی ہے کسی اور نے نہیں کی۔ سر زمین ہند میں عمل بالحدیث کا بیج حقیقت میں آپ کے والد بزرگوار نے بویا تھا۔ اور آپ نے اسے برگ و بار بخشا۔ ورنہ بلاد ہند میں کوئی شخص علاوہ فقہ حنفی کے علم حدیث سے تمسک نہیں کرتا تھا۔ فجزاہ اللّٰہ عناخیرالجزاء (انتہی ملخصاً و مترجماً)
شاہ رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ المتوفی۱۲۳۰ھ
آپ شاہ ولی اللہ کے سعادت مند فرزند اور شاہ عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ آپ نے جملہ علوم کی عموماً اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ضوصاً سند اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ آپ علوم دینیہ اور عقلیہ میں مرجع ارباب استعداد تھے۔ چونکہ آخری عمر میں جناب شاہ عبدالعزیز کو کبرسنی نے بالکل ضعیف کر دیا تھا۔ اس لئے تدریس کا سلسلہ آپ ہی کی مقدس ذات سے وابستہ تھا۔ دور دراز کے شہروں سے جو زبردست فضلاء یہاں آکر آپ کی قدم بوسی کا شرف حاصل کرتے باوجودیکہ فضل و کمال کی سند حاصل کئے ہوتے پھر بھی آپ کا تبحر علمی دیکھ کر عش عش کر اٹھتے۔ دیار ہند کے تمام نامی اور مشہور فضلاء آپ ہی کے مستفیضوں اور خوشہ چینوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ آپ کو ہر فن کے ساتھ اعلی مناسبت تھی۔
طلبہ کی تدریس کی وجہ سے تصنیف و تالیف کے لئے آپ کو بہت کم وقت ملتا تھا۔ پھر بھی آپ نے کئی مفید کتابیں تصنیف کیں ۔ عربی میں پر معنی اور دلچسپ نظم و نثر کے مضامین لکھے اور قرآن شریف کا لفظی ترجمہ کر کے عامہ خلائق کو مستفیض فرمایا۔
آپ نہایت اعلی پایہ کے محقق تھے۔ آپ کی بہت سی عمدہ تالیفات ہیں جن میں
|