Maktaba Wahhabi

241 - 484
لا تجزی صلوۃ لایقیم الرجل فیہا صلبہ فی رکوعہ و سجودہ (دارقطنی) ’’وہ نماز کفایت نہیں کرتی جس میں آدمی اپنی پشت رکوع و سجود میں درست نہ کرے۔‘‘ نیز یہ کہ صحیح بخاری وغیرہ میں جو مذکور ہے کہ ایک شخص رکوع سجود وغیرہ ارکان نماز درست طور پر ادا نہیں کرتا اور آنحضرت اس کو بار بار فرماتے تھے ارجع فصلی فانک لم تصل ’’یعنی نماز پھر لوٹا کر پڑھ کیونکہ تونے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ تو اس کی بھی یہی وجہ تھی کہ اس کی نماز میں یہ ارکان ہیات شرعی سے ادا نہ ہوتے تھے ورنہ حقیقت لغوی تو وہاں بھی موجود تھی۔ قائدہ’’الخاص لا یحتمل البیان‘‘: (۱) لیکن اس کے مقابلے میں حضرات حنفیہ کا مذہب بالکل جدا ہے۔ وہ پہلے ایک قاعدہ بناتے ہیں اور اس کے مطابق قرآن کا مفہوم مقرر کرتے ہیں پھر اس قاعدے پر جزئیات مسائل کو متفرع کرتے ہیں جزئیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان اور طریق عمل کے موافق ہوں یا نہ ہوں اس سے غرض نہیں ۔ عدم موافقت کی صورت میں اس روایت کے قبول کرنے میں چند ایک عذر بنا رکھے ہیں ۔ ان میں سے کوئی پیش کر دیا جاتا ہے چنانچہ ہم ان قواعد و عذرات کو مثالوں سے سمجھاتے ہیں ۔ پہلی مثال مسئلہ تعدیل ارکان: (۱) حضرات احناف کے نزدیک نماز میں رکوع و سجود فرض تو ہیں لیکن صرف ان کی لغوی حد تک۔ اطمینان و اعتدال از روئے لغت ان کی ماہیت میں داخل نہیں ہیں تو یہ فرض بھی نہیں ہیں ۔ لہٰذا اگر کوئی شخص بغیر اطمینان و اعتدال کے رکوع سجود کرے تو اس کی نماز فاسد و باطل نہیں ہو گی بلکہ ناقص ہو گی جس کی تلافی سجدہ سہو سے ہو سکتی ہے اس امر کی دلیل کوئی آیت یا حدیث (قول فعلی) نہیں ہے۔ بلکہ ایک قاعدہ ہے۔ جو انہوں نے خود بنایا ہے کہ جو لفظ مفہوم المعنی ہو اس کے لئے کسی زائد بیان کی ضرورت نہیں چنانچہ منار متن نور الانوار میں ہے الخاص لا یحتمل البیان لکونہ بینا (ص۱۵) یعنی جو لفظ خاص ہو وہ کسی بیان کا محتاج نہیں کیونکہ
Flag Counter