Maktaba Wahhabi

240 - 484
شریف کا۔ اور ایک خاص قسم کی پاکیزگی متعلق مال کے یعنی صدقہ مفروضہ مراد ہے۔ اگرچہ شرعی اور لغوی و عرفی معانی میں مناسبت باقی رہتی ہے۔ لیکن ان کی حدود میں فرق آجاتا ہے۔ اسی طرح لغت میں ’’رکوع‘‘ کے معنی ہیں انحنا یعنی جھکنا۔ اور شریعت میں ایک خاص ہئیات و حالت میں جھکنے کو رکوع کہتے ہیں چنانچہ قاموس میں ہے۔ والرکوع فی الصلوۃ ان یخفض راسہ بعد قومتہ القراء حتی تتال راتاہ رکبتیہ او حتی یطمئن ظھرہ (قاموس اللغۃ) نماز میں ’’رکوع‘‘ اس کا نام ہے کہ قومۂ قرأت (قیام) کے بعد سر کو اتنا جھکائے کہ دونوں ہتھیلیاں دونوں گھٹنوں پر ہوں اور پشت مطمئن (ہموار) ہو۔ اسی طرح لغت میں سجدہ کے معنی جھکنے‘ عاجزی کرنے کے بھی ہیں اور کھڑے ہونے کے بھی ہیں چنانچہ قاموس میں ہے سجد خضع وانتصب ضد یعنی سجدہ کے معنی گرا اور کھڑا ہوا (دونوں ہیں ) اور یہ لفظ ذوات الاضداد میں سے ہے جن کے معنی آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں ۔ لیکن شریعت میں سجدہ اسے کہتے ہیں کہ دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیوں کے سرے زمین کے ساتھ لگے ہوں اور پیشانی مع ناک زمین پر لگی ہو تاکہ پیٹ کے بل لیٹ کر یا کسی اور طرح سے پیشانی زمین پر رکھنے سے فرق ہو جائے۔ تو اب جس جگہ شریعت میں سجدے اور رکوع کا حکم ہو گا وہاں اہل حدیث کے نزدیک ان کے لغوی معنی پر بس نہیں ہو گی بلکہ اگر شرعی مفہوم کے رو سے ادا کئے جائیں گے تو سجدہ و رکوع کہلائیں گے ورنہ نہیں اور ظاہر ہے کہ رکوع میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے اور پشت کو ہموار کرنے کی قید اور سجود میں دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں زمین سے لگے رہنے کی قید ان کے مفہوم لغوی پر زائد امر ہے۔ یہ اسی لئے ہے کہ خطابات شرعیہ میں مفہوم شرعی کا لحاظ ضروری ہوتا ہے اور صرف مفہوم لغوی پر بس نہیں ہوتی۔ حدیث میں ایسی نماز کو شمار نہیں رکھا جس میں رکوع و سجود میں اور ان دونوں سے اٹھنے کی حالت میں پیٹھ سیدھی نہ کی جائے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
Flag Counter