Maktaba Wahhabi

479 - 484
سے ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن اس خطاب کو عزت و شرف اس نام کی برکت سے ضرور حاصل ہوا۔‘‘ آپ کے چند اخلاق حسنہ: آپ کے دشمن جانی بھی جب سامنے آکر اپنی حاجتیں پیش کرتے تو آپ بکشادہ پیشانی نہایت ہی ہنسی خوشی سے ان کی حاجت روائی کرتے۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت آپ اپنا جوتا خود اٹھاتے تھے۔ کسی اور کو اٹھانے کا موقعہ نہیں دیتے تھے۔ علیا حضرت والیہ بھوپال کی طرف سے قاضی القضاۃ کا عہدہ پیش کیا گیا لیکن آپ نے روش محدثین کو ملحوظ رکھتے ہوئے بوریا نشینی و درس و تدریس کو کرسی نشینی پر ترجیح دی۔ تقریبا ًاسی برس آپ دہلی میں رہے۔ مگر اپنی اور اپنے اہل و عیال کی سکونت کے لئے ایک مکان بھی تعمیر نہ کرایا اور کرایہ کے مکان میں زندگی بسر کر دی اور وہ مکان بھی محض معمولی درجہ کا تھا۔ اس خاکسار مولف کی موجودگی میں آپ کے پوتے سید عبدالسلام صاحب نے شیخنا حافظ عبدالمنان صاحب رحمہ اللہ وزیر آبادی سے کہا کہ آج تک ہم دہلی میں کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں ۔ آپ میاں صاحب سے عرض کریں کہ ہمارے لئے کوئی اپنا سکونتی مکان تو بنوا دیں ۔ اس پر حافظ صاحب نے کہا کہ میری کیا مجال ہے کہ میں آپ سے کچھ عرض کر سکوں ۔ کیونکہ جس شخص نے اسی سال تک ایک روش پر زندگی گزاری ہو۔ میں شاگرد ہو کر اس کے نقطہ خیال کو کس طرح بدل سکتا ہوں ۔ اس عاجز پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی احسان: گویہ عاجز حضرت میاں صاحب مرحوم کے سب سے چھوٹے شاگردوں میں سے ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ فضل کیا ہے کہ بڑے بڑے بزرگوں کی اولاد نے مجھ عاجز سے علم حدیث تفسیر وغیرہما حاصل کیا۔ مثلاً خود میاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے پڑپوتے سید حسن صاحب‘ جناب حافظ عبدالمنان صاحب رحمہ اللہ کے فرزند صوفی عبدالرشید صاحب رحمہ اللہ ‘ مولانا ابو عبداللہ غلام حسن رحمہ اللہ
Flag Counter