Maktaba Wahhabi

478 - 484
گئے۔ آخر آپ بری قرار دئے گئے۔ اس کے بعد پاشا نے آپ کا بہت اکرام کیا اور خاص اپنے ہاتھ سے قہوہ پیش کیا اور باز پرس پر معذرت کی اور طلب عفو کے ساتھ اپنے حق میں دعائے خیر چاہی۔ یہ معلوم کر کے کہ آپ مدینہ طیبہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ پاشا مذکور نے آپ کو ایک خط مدینہ منورہ کے پاشا کے نام لکھوا کر اپنی مہر خاص سے مسجل کر کے دیا۔ اور کہا کہ آپ سے وہاں کسی قسم کا تعرض نہیں ہو گا۔ پاشا کا یہ خط لے کر میاں صاحب مع اپنے شاگرد اور رفیق مولوی تلطف حسین صاحب عظیم آبادی وغیرہ کے مدینہ پہنچے۔ وہاں بھی مخالفین نے بہت کچھ فتنہ بپا کرنے کی کوششیں کیں مگر ان کی کچھ نہ چلی۔ آپ وہاں کچھ روز قیام کر کے واپس تشریف لے آئے۔ حافظ ڈپٹی مولوی نذیر احمد صاحب (مترجم قرآن) فرماتے ہیں ۔ جب آپ سفر حجاز سے واپس تشریف لائے تو اسٹیشن دہلی پر استقبال کے لئے اس قدر لوگ حاضر ہوئے کہ پلیٹ فارم کا ٹکٹ ختم ہو گیا۔ کار پردازان اسٹیشن حیران تھے کہ یہ کس نامی گرامی شخص کی آمد آمد ہے۔ حکومت کی طرف سے خطاب: جون۱۸۹۷؁ء مطابق محرم ۱۳۱۵؁ھ میں آپ کو گورنمنٹ انگلشیہ کی طرف سے شمس العلماء کا خطاب ملا۔ جب لوگ خلعت و خطاب کے ساتھ میاں صاحب سے ملے اور آپ کو اس سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا۔ ’’ہم غریب آدمی خلعت و خطاب لے کر کیا کریں گے۔ خلعت و خطاب تو بڑے آدمیوں کو ملنا چاہئے ۔ ہم کو دنیا لاحاصل ہے۔ بعد اس گفت و شنید کے آپ نے اسی قدر فرما دیا۔ اچھا صاحب آپ حاکم ہو جا چاہو کہو۔‘‘ اس خطاب کے بعد رسالہ دلگداز (لکھنؤ) کے ایڈیٹر نے بعنوان ’’شمس العلماء‘‘ ایک مضمون لکھا جس کا ماحصل یہ ہے۔ ’’مولانا سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کی عزت افزائی تو اس خطاب
Flag Counter