حضرت علی رضی اللہ عنہ پر خارجیوں کے اعتراضات اور
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ان کو جوابات
خارجیوں نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے متعلق جو اعتراض تراشے وہ حسب روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ تین ہیں ۔ عبد الرزاق اور حاکم اور بیہقی (رحمہم اللہ) نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ جب حروریہ (خارجی) الگ ہو گئے اور وہ ایک مکان پر علیحدہ تھے تو میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نماز (ظہر) کو ٹھنڈا کریں تاکہ میں اس قوم کے پاس جا کر ان سے بات چیت کروں ۔ میں ان کے پاس آیا اور اچھے سے اچھے حلے پہنے۔ انہوں نے کہا مرحبا یا ابن عباس یہ حلہ کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ تم اس میں مجھ پر کیا عیب پکڑتے ہو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اچھے سے اچھا حلہ پہنا۔ اور یہ آیت اتری قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ الایۃ۔ انہوں نے کہا (اچھا) فرمائیے۔ آپ کیسے تشریف لائے ہیں ؟ میں نے کہا۔ مجھے بتاؤ کہ تم رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ابن عم اور آپ کے داماد اور سب سے پہلے ایمان لانے والے اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ان اصحاب میں جو ان کے ساتھ ہیں کیا برائی پاتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم ان میں تین باتیں بری پاتے ہیں ۔ میں نے کہا وہ کونسی ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ پہلی ان میں سے یہ ہے کہ اس نے خدا کے دین میں آدمیوں کو حکم مانا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ یعنی نہیں حکم (مگر واسطے اللہ کے) میں نے کہا اور کیا؟ انہوں نے کہا اس نے قتال کیا اور نہ ان کو گالیاں دیں اور نہ ان کا مال لوٹا۔ اگر وہ کافر تھے تو ان کے مال حلال تھے۔ اور اگر وہ مومن تھے تو ان کے خون حرام تھے۔ میں نے کہا اور کیا؟ انہوں نے کہا اس نے (تحریک صلح والے کاغذ پر سے) امیرالمومنین نہیں تو وہ امیر الکافرین ہے۔ میں نے ان
|