Maktaba Wahhabi

66 - 484
سے کہا (اچھا) اگر میں تم پر قرآن محکم پڑھوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے جس میں تم شک نہ کر سکو حدیث بیان کروں تو کیا تم رجوع کر لو گے؟ انہوں نے کہا نعم یعنی ہاں ۔ میں نے کہا تمہارا یہ قول کہ اس نے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے دین میں آدمیوں کو حکم مانا ہے (اس کا جواب یہ ہے) کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یایھا الذین امنوا لاتقتلوا الصید وانتم حرم (الی قولہ) یحکم بہ ذوا عدل منکم۔ الایہ۔ نیز بیوی اور اس کے خاوند کے بارے میں فرمایا۔ وان خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکما من اھلہا۔ الایۃ میں تم سے اللہ تعالیٰ کے نام پوچھتا ہوں کہ (مسلمان کو) لوگوں کے خونوں اور جانوں کی حفاظت میں ۔ اور ان کے آپس کے معاملات کی اصلاح میں حکم مقرر ہونا بہتر ہے یا ایک خرگوش کے بارے میں جس کی قیمت ایک درہم کا چوتھا حصہ ہے (یعنی ایک آنہ) انہوں نے کہا ان کے خون میں اور ان کے آپس کے معاملات کی اصلاح میں حکم مقرر ہونا بہتر ہے۔ میں نے کہا کیا میں اس (دلیل) سے (پہلے اعتراض سے) نکل گیا۔ انہوں نے کہا اللھم نعم۔ (پھر میں نے کہا) اور تمہاری یہ بات کہ اس نے قتال کیا اور (فریق مخالف کو) گالیاں نہیں دیں اور نہ ان کا مال لوٹا (سو اس کا جواب یہ ہے) کہ کیا تم اپنی ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو گالی دو گے؟ اور اس کے متعلق بھی اس امر کو حلال جانو گے۔ جو اس کے سوا سے حلال جانتے ہو؟ اگر ایسا ہے تو تم نے کفر کیا۔ اور اگر تم گمان کرو کہ وہ تمہاری ماں نہیں ہے تو بھی تم کافر ہو گئے۔ اور اسلام سے خارج ہو گئے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْالایۃ پس تم دو گمراہیوں میں ڈگمگا رہے ہو پس جس کو چاہو اختیار کر لو کیا میں اس سے بھی نکل گیا؟ انہوں نے کہا اللھم نعم (پھر حضرت ابن عباس نے کہا) لیکن تمہارا یہ قول کہ اس نے اپنا نام امیر المومنین (کے لقب) سے مٹا دیا (تو اس کا جواب یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صلح) حدیبیہ کے روز قریش کو دعوت دی کہ ہمارے اور تمہارے درمیان ایک نوشت ہو جائے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا) لکھو ’’یہ وہ صلح نامہ ہے
Flag Counter