جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ نے صلح کی۔ (قریشیوں نے) کہا اللہ کی قسم اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول جانتے تو ہم آپ کو بیت اللہ شریف سے نہ روکتے اور نہ آپ سے لڑائی کرتے لیکن آپ محمد بن عبد اللہ لکھوائیں ۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی قسم میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اگرچہ تم میری تکذیب کرتے ہو۔ اے علی رضی اللہ عنہ لکھو محمد بن عبد اللہ اور (معلوم ہے کہ) رسول اللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ کیا میں اس سے بھی نکل گیا؟ انہوں نے کہا اللھم نعم پس ان میں سے بیس ہزار آدمی تائب ہو گئے اور چار ہزار باقی رہ گئے۔ جو قتل کئے گئے (فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت مطبوعہ مصر مع مستصفی للامام الغزالی رحمہ اللّٰہ جلد۲ ص۳۸۸‘ ۳۸۹)
اس اختلاف کا اثر یا نتیجہ:۔
خارجیوں نے کھلم کھلے طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر شروع کر دی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا بندوں کو حکم بنایا ہے اسی پر ترقی کرتے کرتے کبیرہ گناہ سے کافر ہو جانا خارجیوں کا مذہب قرار پایا۔ اس پر بھی طرفین سے دلائل شروع ہوئے تو سیاسی اختلاف نے مذہبی صورت اختیار کر لی۔ پس اب یہ حالت ہو گئی کہ علوی تو عثمانیوں کو گالیاں دیں ۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی منقصت کر کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سے افضل کہیں ۔ اور عثمانی علویوں کو برا کہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیں ۔ اور خارجی ہر دو کو کافر کہیں ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے سنا تو فرمایا:
امروا ان یستغفروا لاصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسبوھم[1] (نووی شرح مسلم)
’’یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم تو یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے لئے استغفار
|