Maktaba Wahhabi

101 - 484
علم کلام: خیر مذکورہ بالا امور تو مسلمانوں کے آپس کے تھے بیرونی (غیر مذاہب کے) حملوں اور اعتراضوں کے مقابلہ کے لئے عقلی اصول کی بنا پر خلیفہ مامون کے دادا خلیفہ مہدی کے حکم سے رد ملحدین و منکرین میں کئی ایک کتابیں لکھی گئیں ۔ جس سے ایک مستقل فن کی بنیاد پڑ گئی تھی۔ لیکن تکمیل و باقاعدہ تدوین اسی زمانہ میں یعنی خلیفہ مامون کے عہد میں ہوئی اور اس کا نام علم کلام ہوا۔ کیونکہ اس وقت اس کے مباحث میں زیادہ مشہور مسئلہ کلام باری تعالیٰ کا تھا۔ چونکہ اس فن کے لکھنے والے ’’معتزلہ‘‘ تھے اور اس کے مسائل کی تحقیق بھی ان ہی کے اصول پر تھی۔ جن سے ائمہ حدیث کو سخت نفرت تھی۔ اور جس کے سبب سے وہ سخت سے سخت تکالیف کے تختہ مشق بنائے گئے تھے۔ اس لئے ائمہ سنت نے اس فن کو قبول نہ کیا اور ان کتابوں کا مطالعہ اور درس و تدریس جائز نہ جانا امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہما ائمہ سنت سے علم کلام کی مذمت میں جو کچھ منقول ہے وہ اسی علم کلام کی نسبت ہے۔ جو ان کے وقت میں انہی معتزلہ نے لکھا تھا بیشک اس میں بہت سے ایسے مسائل تھے جو یا تو جماعت صحابہ و خیار تابعین رحمہ اللہ کے برخلاف تھے۔ یا ایام سلف میں ان کے متعلق کوئی بحث نہ چھڑی اور ان کا زمانہ امن سے گذر گیا تو متاخرین (تبع تابعین) اور ’’محدثین‘‘ نے بھی اس بے امنی کے وقت میں ان میں بے ضرورت بحث و کرید کر کے نئے اختلافات پیدا کرنے نہ چاہے۔ چنانچہ سید عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ غنیتہ الطالبین میں فرماتے ہیں ۔ وانما کفر القائل بخلق القران وبدع الاخر لان مذھبہ رحمہ اللّٰہ علی ان القران اذا لم ینطق بشئی ولا یروی فی السنۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم شئی وانقرض عصر الصحابۃ ولم ینقل احد منہم قولا فالقول فیہ بدعۃ وحدث[1] ’’یعنی امام احمد نے قائل خلق قرآن کو کافر اور دوسرے کو بدعتی اس لئے کہا کہ آپ کا مذہب اس بات پر مبنی ہے کہ جب قران شریف میں (اس بارے
Flag Counter