Maktaba Wahhabi

100 - 484
اللّٰہ برحمۃ الواسعۃ ہماری حیرت کی کوئی حد نہیں رہتی جب ہم ایک طرف تو یہ دیکھتے ہیں کہ مجوسیوں اور نصرانیوں کو تو مذہبی امور میں یہاں تک آزادی ہے کہ وہ کھلے دربار میں پاک اسلام پر نکتہ چینی کریں ۔ اور خلیفہ حوصلہ و حلم سے برداشت کرے اور ان کے بیہودہ اعتراضات کا جواب دے۔ اور ان کے لاجواب ہو جانے پر بھی ان کو اسلام لانے پر مجبور نہ کرے۔ اور نہ اعتراض کرنے سے روکے۔ اور دوسری طرف یہ دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے محافظین سنت اور ائمہ حدیث پر اس قدر تنگی ہے کہ ایسے مسئلہ میں جو سلف امت میں معرض بحث میں نہیں آیا۔ تو اگر وہ محض اس میں دینداری اور تقوی کے خیال سے خلیفہ کے ہم خیال نہیں ہوتے تو ان کی بے عزتی و بے حرمتی اور ایذا و تکلیف میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی؎ مکش بہ تیغ ستم والہان سنت را نکردہ اندبجز پاس حق گنا ہے دگر اگر یہ سلوک کسی زودرنج‘ متلون مزاج‘ کم علم‘ کم فہم شخص سے سرزد ہوا ہوتا تو ہم کو کوئی تعجب نہ ہوتا۔ کیونکہ جبر و استبداد کے ایسے واقعات حکومت کی طرف سے عموماً ہوتے رہتے ہیں لیکن خلیفہ مامون ایسے حلیم و بردبار‘ متین و باوقار‘ فہیم و علمدار شخص سے ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ غرض معتزلوں کو دربار خلافت میں رسائی‘ شاہی قدر افزائی اور اس پر مزید یہ کہ خود خلیفہ کی حمایت بلکہ ہم نوائی کے سبب بفجوائے ’’ہر عیب کہ سلطاں بہ پسند و ہنرست‘‘ بہت فروغ ہوا۔ امور مذکورہ بالا کے علاوہ ایک اور سبب بھی تھا۔ جس نے معتزلوں کو خلیفہ کے بہت قریب کر دیا۔ وہ یہ کہ خلیفہ مامون بمتا بعت شیعیت حضرت علی مرتضی (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ورضاہ) کو صحابہ میں سب سے افضل جانتا تھا۔ اور معتزلہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ (دیباچہ نہج البلاغتہ)
Flag Counter