Maktaba Wahhabi

397 - 484
اول مصنف ہیں ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ابن جریج رحمہ اللہ کو صاحب التصانیف کے نام سے نامزد کیا ہے۔ نیز لکھتے ہیں کہ خالد بن نزار ایلی نے کہا کہ میں ۱۵۰ھ؁ میں ابن جریج کی کتابیں لے کر (بیت اللہ شریف کے) سفر پر نکلا کہ ابن جریج سے ملاقات کروں ۔ لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں (انا للّٰہ)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی کئی تصانیف ہیں لیکن آج وہ سب ناپید ہیں ۔ حاجی خلیفہ رحمہ اللہ نے کشف الظنون میں عنوان السنن الموجودۃ قبل الصحیحین میں یوں لکھا ہے۔ منہا سنن لابن جریج و سنن لابن اسحق غیر السیر التی تقدمت (صفحہ۳۷ جلد دوم) امام ابن جریج یکم ذی الحجہ ۱۵۰ھ؁ کو مکہ شریف میں فوت ہوئے۔ رحمہ اللہ و ایانا۔ (۳) امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ : آپ فن مغازی کے بلا نزاع امام ہیں ۔ مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے۔ پھر کوفہ رے اور جزیرہ میں اقامت کرنے کے بعد بغداد میں جا بسے اور وہیں ۱۵۱ھ؁ میں فوت ہوئے۔ آپ کو حضرت انس رضی اللہ عنہ صحابی کی زیارت کا شرف حاصل تھا۔ امام زہری رحمہ اللہ کے ہاں ان کی بہت قدر و منزلت تھی دربان کو حکم تھا کہ محمد بن اسحاق آویں تو ان کو روکا نہ جائے۔ انہوں نے فن حدیث میں بھی ایک کتاب السنن لکھی۔ جس کا ذکر اوپر امام ابن جریج کے حال میں ہو چکا ہے اور فن مغازی میں بھی بہت مفید کتاب لکھی۔ ان سے پیشتر خلفاء کی توجہ مغازی کی طرف بالکل نہ تھی۔ ان کی تصنیف نے ایسی قدر پائی کہ خلفاء کا مذاق طبع ہی بدل گیا اور وہ مغازی کے بہت ہی شائق ہو گئے۔ چنانچہ خاتمتہ الحفاظ تہذیب التہذیب میں ابن عدی محدث کے قول سے نقل کرتے ہیں کہ اگر امام محمد بن اسحاق کی سوائے اس کے کہ اس نے خلفاء کو ایسی کتابوں کے مطالعہ سے ہٹا کر جن سے کچھ بھی فائدہ نہ تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مغازی اور آپ کی بعثت کی طرف مشغول کر دیا
Flag Counter