شیخ رضی الدین حسن صغانی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ
ولادت ۵۷۷ھ وفات ۶۵۰ھ
آپ کے والد ماجد صغان علاقہ ماوراء النہر سے آکر پنجاب کے دارلخلافہ شہر لاہور میں آباد ہوئے جہاں آپ ۵۷۷ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ فاروق اعظم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں ۔ ابتداء حال میں آپ نے اپنے والد ماجد سے تعلیم پائی۔ اور کافی مہارت حاصل کی۔ افسوس ہے کہ شیخ موصوف نے والد ماجد کے علاوہ جن ہندی شیوخ سے علم پڑھا۔ ان کے اسماء گرامی معلوم نہیں ہو سکے۔ آپ کے جو حالات یہاں لکھے جاتے ہیں ۔ وہ ابجد العلوم و اتحاف النبلاء ہر دو مصنفہ نواب صاحب مرحوم ماثر الکرام مصنفہ حسان الہند سید غلام علی صاحب آزاد بلگرامی اور کشف الظنون مصنفہ حاجی مصطفی چلپی استنبولی سے ماخوذ ہیں ۔
آپ ۶۱۵ھ میں بغداد چلے گئے اور کئی سال تدریس و تصنیف میں گذارے۔ پھر مکہ شریف میں جا کر کچھ مدت وہاں کی ظاہری و باطنی برکات سے بہرہ اٹھاتے رہے۔ بعد ازاں عراق میں واپس آگئے۔ ۶۱۷ھ میں خلیفہ معتصم عباسی نے آپ کو بطور سفیر ہندوستان بھیجا۔ ۶۲۴ھ میں ہند سے عراق لوٹے۔ اس کے بعد دوسری بار بطور سفیر ہندوستان آئے اور ۶۳۷ھ میں بغداد تشریف لے گئے۔
آپ نے اپنے والد ماجد کے علاوہ بعض دیگر علمائے عراق عرب و مکہ معظمہ سے بھی علم حاصل کیا اور حدیث کی سماعت کی۔ پھر بغداد کی طرف رحلت کی اور مدت تک وہاں اقامت پذیر رہے اور تدریس و تصنیف میں مشغول رہے۔ آپ مختلف فنون مثلاً حدیث لغت اور فقہ کے مسلم صاحب مہارت امام تھے۔ آپ نے مختلف علوم میں متعدد کتابیں لکھیں مثلاً علم حدیث میں مشارق الانوار جو تمام دنیا میں مشہور و متداول ہے۔ اس میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سے احادیث کو انوکھی ترتیب پر منتخب کیا ہے۔ علمائے حدیث نے اس کی متعدد مختصر اور مبسوط شرحیں لکھی ہیں ۔ مثلا صاحب قاموس نے ’’شوارق الاسرار‘‘ العلیہ چار جلدوں میں اور عز الدین ابن ملک نے مبارق
|