بھی دامن بھر لاتے رہے۔
خدائے ذوالجلال کے علم میں اس کے لئے ایک ایسا وقت بھی مقرر تھا کہ ہند و پنجاب کا کوئی بھی گوشہ اس کے فیض سے خالی نہ رہے۔ سو بفحوائے واللہ متم نورہٖ ہو کر رہا۔ وللہ الحمد
اس ملک میں اس پاک علم کا رواج گو دوسرے ممالک سے صدیوں بعد ہوا۔ لیکن خدا کے فضل سے اشاعت میں دوسروں سے کم نہ رہا اور بالخصوص اس آخری دور میں کہ قیامت سر پر آرہی ہے اور مسلمانوں میں عملی ضعف نہایت تک پہنچ چکا ہے۔ عمل بالحدیث میں تو دوسرے ممالک سے بدرجہا فائق ہے وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۔ التماس۔ اس خوشہ چین علمائے متقدمین نے اس حصہ کتاب میں زیادہ تر حاجی خلیفہ قسطنطینی (المتوفی ۱۰۶۷ھ کی کتاب کشف الظنون اور حسان الہند میر غلام علی آزاد بلگرامی المتوفی ۱۲۰۰ھ کی کتاب ماثر الکرام اور شیخ شیخنا حضور پر نور نواب سید صدیق حسن صاحب کی کتب ابجد العلوم اور اتحاف النبلاء سے مدد لی ہے اور بعض جگہ مولانا عبدالحئی صاحب مرحوم لکھنوی المتوفی ۱۳۰۴ھ کی کتاب فوائد بہیہ اور اس کے حواشی سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ (جزا ھم اللّٰہ اجمعین) اور جس کتاب سے کچھ لیا ہے حسب عادت اس کا حولہ دے دیا ہے۔
قارئین کرام سے التماس ہے کہ اگر اس میں کوئی غلط فہمی پائیں تو سؤظن سے اجتناب کرتے ہوئے میرے سہوو قصور علم کا نتیجہ سمجھیں اور اسے دامن اغماض سے ڈھانپ کر اس کی اصلاح کر دیں ۔ اور اس عاجز کو دعائے خیر سے یاد کریں کہ میں نے عربی اور فارسی زبان کی کمیاب کتابوں سے انتخاب کر کے اردو خواں اخوان کے لئے ان کی زبان میں ایک نادر تحفہ پیش کر دیا ہے۔ واللّٰہ الموفق الخیر اللہم تقبل منی انک انت السمیع العلیم وانفعنی ولا بائی و اخوانی بھذا التحفۃ السنیۃ الھدیۃ البھیہ فی الدنیا والاخرہ۔
مسود اوراق سیاہ کار میر سیالکوٹی ۱۵ شوال
|