جس کا اثر کیسا ہی دھیما اور کتنا ہی تھوڑا کیوں نہ ہو اور آفت زمانہ سے دب دب کر مایوس کن صورتیں کیوں نہ دکھائی دیں ۔ لیکن آخر کار سب مزاحمتیں دور ہو کر غلبہ اسی کو ملتا ہے والعاقبۃ للتقوے۔
(۳) ملک ہند و پنجاب میں علم سنت مطہرہ بفحوائے حدیث پاک بدء الاسلام غریباً الحدیث (مشکوٰۃ) بالکل اجنبیت کی حالت میں آیا اور صدیوں تک اس کے خواہاں خال خال نظر آتے رہے۔ نہ تو دربار شاہی میں اس کو بار ملا کہ سلطنت اس کی کفالت کرتی اور نہ مجالس امراء و رؤسا میں رسائی ہوئی کہ اس کے تذکرہ سے مجالس گرم ہوتیں اور نہ نصاب مدارس میں دخل ملا کہ علماء اس کی خدمت سے بہرہ اندوز ہوتے۔
ممالک بعیدہ سے انواع و اقسام کے حیوانات و طیور جمع کرنے کا خاص اہتمام تھا۔ بادشاہ سلامت خود تشریف لا کر خاص دلچسپی سے ان کو ملاحظہ فرماتے لیکن حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کتب خانہ جمع نہ کیا گیا۔ مشاعرہ اور گپ بازی سے مجالس کو رونق دی جاتی۔ ظریفوں ‘ نقالوں اور بھانڈوں کی تنخواہیں بھی مقرر تھیں اور علاوہ بریں ان پر عطیات و انعامات بارش کی طرح برسائے جاتے تھے۔ لیکن قال (الصحابی) قال رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صدا سے کان غیر مانوس تھے۔ درسیات میں ارسطو کے فرسودہ خیالات اور اقوال الرجال کو منتہائے علم قرار دیا گیا لیکن وحی ربانی اور سنت رسول حقانی صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت حقہ کا مدار اور عقلیات کی محک صادق ہے۔ اسے حلقہ درس میں دخل ہی نہ تھا۔
آہ! مسلمانوں کا کتنا روپیہ تحریش بہائم (مینڈھا بازی وغیرہ) اور کنکوا بازی میں صرف ہوتا۔ لیکن خرچ شاہی سے کسی جماعت کو عربستان میں تحصیل و تکمیل فن حدیث کے لئے بھیجا نہ جاتا جیسا کہ انگریزی حکومت کے وقت بعض کمالات کی تکمیل کے لئے بعض اشخاص کو شاہی وظائف سے امریکہ وغیرہ ممالک میں بھیجا جاتا ہے فیا اسفی۔
غرض شاہی کفالت سے تو اس فن کی طرف مطلقاً تو جہ نہیں کی گئی لیکن ہاں ذاتی طور پر بعض ارباب ہمت نے صعوبت سفر برداشت کی اور وہ ’’حرمین شریفین‘‘ (حرسہما اللہ) کی زیارت سے مشرف ہونے کے ساتھ اس فن کے جواہرات سے
|