Maktaba Wahhabi

99 - 484
شوق تھا۔ چنانچہ اس نے اس امر کے لئے بھی ایک خاص محکمہ کھولا جس میں ہر ملت و مذہب کے ماہرین فن کو مناسب خدمتیں سپرد کیں اور ان کے وظائف و مشاہرے مقرر کئے اور جو انعامات و عطیات عطا ہوتے تھے وہ اس پر علاوہ تھے۔ دربار خلافت میں علمی مجالس منعقد ہوتیں ۔ اور مذہبی مسائل پر آزادی سے گفتگو ہوتی۔ مجالس مناظرہ کے سرخیل بوہذیل علاف اور ابراہیم نظام تھے۔ جو اہل اعتزال کے پیشوا اور مقتدا تھے۔ ابو ہذیل تو نظام کا استاد تھا۔ اور نظام خود خلیفہ کا۔ بس اب دربار خلافت میں ان کے اقتدار میں کیا کسر باقی رہ سکتی تھی۔ خود خلیفہ بھی ان کے شیشے میں اتر آیا اور مذہب اعتزال ’’شاہی مذہب‘‘ ہو گیا۔ خلیفہ نے معتزلوں کے بعض مخصوص مسائل جبر و تشدد سے منوانے چاہئے اور اپنے جانشین خلیفہ معتصم کو بھی اسی کی وصیت کر گیا۔ جس سے علمائے سنت سخت امتحان و ابتلا میں پڑے۔ چنانچہ امام اہل سنت حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی ایذاء و ابتلا اسی زمانہ کی یاد گار ہے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ امام صاحب ممدوح نے خلیفہ کی موافقت میں قرآن مجید کو مخلوق نہ کہا۔ حیرت:۔ خلیفہ مامون میں جہاں بہت سی قابل قدر‘ مہر و ماہ کی طرح درخشاں خوبیان تھیں ۔ وہاں اس مہتاب میں ایک داغ بھی تھا۔ کہ جو بات اس کے ذہن میں بیٹھ جاتی اسے بجبر منوانے کی کوشش کرتا۔ لیکن یہ جبر و سختی غیر ادیان پر نہیں تھی۔ معتزلوں کی صحبت سے خلیفہ کے ذہن نشین ہو گیا۔ کہ قرآن مجید ’’مخلوق‘‘ ہے۔ اس کی اشاعت کے لئے اسحاق بن ابراہیم والیٔ عراق کو لکھا کہ فقہاء و محدثین کو جمع کرو۔ اور قرآن مجید کے متعلق ان سے سوال کرو۔ اگر وہ اسے مخلوق کہیں تو چھوڑ دیں ۔ ورنہ پا بزنجیر میرے پاس بھیج دو۔ اس جبری حکم سے بڑے بڑے محدث بزرگ آزمائش میں پڑے۔ بعض نے عذر و بہانے سے پنڈ چھڑایا۔ اور بعض نے پہلی ہی دھمکی سے بادل ناخواستہ مان لیا۔ اور بعض نے مصیبت میں پڑ کر جان چھڑائی۔ لیکن اہلسنت کے سرخیل امام احمد بن حنبل نے سب کچھ برداشت کیا۔ کلام خدا کو مخلوق نہ کہا۔ تغمد ھم
Flag Counter