میں ) کچھ مصرح نہیں اور علم حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مروی نہیں ۔ اور صحابہ کا زمانہ بھی اسی طرح گذر گیا کہ ان میں سے بھی کسی نے کچھ بھی نقل نہیں کیا تو اس بارے میں کوئی بات کہنا بدعت ہے اور دین میں نئی بات نکالنا ہے۔‘‘
تبصرہ بر علم کلام: حضرت مولانا روم صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ؎
چند خوانی حکمت یونانیان
حکمت ایمانیان راہم بخواں
صحابہ و تابعین کے زمانہ میں مسلمانوں کی علمی و عملی جدوجہد شریعت مطہرہ کی اشاعت و ترویج اور تعلیم و تعمیل پر بس رہی جس میں ان کی دین و دنیا کی بہبودی و سعادت تھی۔
صنائع و علوم عقلیہ نہ تو عرب میں تھے اور نہ ان کو ان کی ضرورت پڑی۔ پھر آہستہ آہستہ جوں جوں تمدن میں ترقی ہوتی گئی اور فتح ممالک کی وجہ سے غیر قوموں سے اختلاط و امتزاج ہوتا گیا۔ طبعیتیں اس طرف مائل ہوتی گئیں ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ان علوم عقلیہ میں بھی کامل اور پورے ماہر ہو گئے۔ کئی مسائل میں یونانیوں سے بر بنائے دلیل اختلاف کیا۔ اور کئی ایک جدید تحقیقات اضافہ کیں ۔ اور کئی ایک علوم کو ان کی ابتدائی حالت سے کمال تک پہنچا دیا۔ اور ایسے علماء حکمائے اسلام یا متکلمین کہلائے۔ جنہوں نے علوم عقلیہ کے رو سے عقائد اسلام کے متعلق کتابیں تصنیف کیں فجزاھم اللّٰہ عنا خیر الجزاء۔
|