Maktaba Wahhabi

190 - 484
بطور فہرست ترتیب وار لکھتے ہیں ۔ (۱) ۶۹۹ھ؁ میں نوبہ غازان میں جنگ کیا۔ (۲) ۷۰۰؁ھ میں جب کفار تاتار نے شام میں فتنہ برپا کیا تو امام ممدوح نے ارکان دولت کو جہاد کی ترغیب دے کر کھڑا کیا اور اسی مہم کے لئے مصر کا سفر کیا اور دربار مصر میں اس مصیبت عظمی کی فریاد کی اور اراکین سلطنت کو غیرت دلا دلا کر اور جہاد کے اجر عظیم اور بے حساب ثواب سنا سنا کر آمادہ جہاد کیا اور پھر ایک جمعیت کے ساتھ شام میں مراجعت کر کے اور بنفس خود شریک جنگ ہو کر تاتاریوں کے فنتہ کو فرو کیا۔ اور ان کے امنڈتے ہوئے سیلاب کو روک دیا۔ جزاہ اللّٰہ عن سائر المسلمین جزاء حسنا (۳) ۷۰۰؁ھ میں شقخب میں جو دمشق کے قریب ایک مقام ہے شجاعت کے وہ جوہر دکھائے کہ سبحان اللہ۔ اس جنگ میں بھی خلیفہ و سلطان اور اعیان ارکان دولت کو ترغیب و تحریص سے کھڑا کیا اور مسلمانوں کو کفار کے فتنے سے بچا لیا۔ اس جنگ میں آپ سے بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں ۔ اور استجابت دعا بارہا ظہور میں آئی۔ (۴) ۷۰۴؁ھ میں کسروانیوں سے جہاد کیا اور کامل فتح حاصل کر کے ان کی بیخ کنی کر دی۔ غرض کسی نازک سے نازک موقع پر بھی مسلمانوں کی خیر خواہی سے پیچھے نہیں ہٹے۔ شاید یہ کہا جائے کہ یہ حکام انہیں میں سے تو تھے جن کے ہاتھوں جگہ بجگہ قید ہوئے تھے تو پھر ان کی نصرت میں کیوں لگ جاتے تھے۔ یا یوں کہیے کہ جن کی نصرت کرتے تھے ان کی مرضی کی خلاف ورزی کر کے قید کیوں ہو جاتے تھے؟ اور جو علماء عصر عوام الناس کو بھڑکا کر ان سے محضر نامے پر دستخط کراتے تھے علامہ موصوف ان علماء اور عوام کی خیر خواہی اور ہمدردی کا دم کیوں بھرتے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ آپ نہایت حق پرست تھے۔ اپنے خدا داد علم سے کام لیتے تھے اور حق کے مقابلے میں کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ خواہ اس راست روی سے کسی کو نقصان پہنچے خواہ نفع۔ محبت تھی تو بس اللہ کے لئے اور بغض تھا تو بس اسی کے واسطے۔
Flag Counter