آپ کا عمل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر تھا کہ
عن تمیم الداری ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال الدین النصیحۃ قلنا لمن قال للہ ولکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین وعامتہم (صحیح مسلم جلد اول ص۵۴)
’’آپ نے فرمایا کہ دین تو بس خیر خواہی کا (نام) ہے لوگوں نے عرض کیا کس کی؟ فرمایا خدا کی اور اس کی کتاب کی اور اس کے رسول کی اور خلفاء اسلام کی عام مسلمانوں کی۔‘‘
عام علماء حدیث نے بیان کیا ہے کہ چار حدیثوں پر مدار اسلام ہے۔ ایک ان میں سے یہ حدیث الدین النصیحتہ ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مدار اسلام کا چوتھا جز نہیں ہے بلکہ یہ اکیلی مدار اسلام ہے۔ پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ائمہ مسلمین یعنی خلفائے اسلام کی خیر خواہی کو مدار اسلام میں داخل کریں تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کسی آڑے وقت پر اسلامی سلطنت کی بدخواہی کیسے کر سکتے ہیں ۔ ان کی تمنا تو یہ تھی کہ ان کی جان ان کا مال‘ ان کی عزت و آبرو سب کچھ اسلامی حکومت کی خیر خواہی میں لگ جائے تو دل کو چین اور کلیجہ کو ٹھندک پہنچے ؎
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
اگر ان پر ظلم کیا یا ان کو ناحق قید کیا تو بعض ان لوگوں نے جن کے ہاتھ میں اس وقت زمام حکومت تھی نہ کہ اسلام کے شاہانہ اقتدار نے۔ ان ظالموں کا استبدادی ہاتھ کم از کم ان کی موت سے کٹ سکتا تھا‘ چنانچہ کٹ گیا‘ لیکن اگر ان پر خفگی کی وجہ سے اسلامی سلطنت کے خلاف ہاتھ اٹھایا جائے یا ان کی نصرت میں تساہل و تکاسل کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کا شاہانہ اقتدار (معاذ اللہ) زائل ہو جائے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ اپنے نفسانی جذبات کو دبا کر ہمہ تن نصرت اسلام میں مصروف ہو جاتے‘ اس کی مثال یہ ہے کہ میاں بیوی میں کچھ ناراضی ہوئی رات کو چور آیا میاں نے جی میں کہا بلا
|