سے سب کچھ لے جائے مجھے کیا۔ گھر کی چیزیں کس کام کی‘ زیور ہے تو عورت کے استعمال کا‘ قیمتی پارچات ہیں تو اسی کے پہننے کے ۔ میرے لئے تو سادہ لباس ہے سو اس کو تو کوئی لے جائے گا نہیں ۔ اور بیوی نے خیال کیا کہ مجھے کیا۔ کمائی ہے تو میاں کی اور قرض ہے تو اسی کے سر‘ نہ ہو گا تو اور لا کر دے گا۔ غرض ہر ایک اپنے اپنے غصہ میں رہے اور مشترکہ خانگی نفع کو عارضی رنجش کے سبب خیال میں نہ لائے جس سے دائمی حرمان نصیب ہوا۔ اگر خدا ان کو سمجھ دیتا کہ بھئی! یہ گھر دونوں کا ہے اس کا اثاثہ ہونے سے دونوں کو آرام ہے اور اس کے نقصان سے دونوں کو تکلیف تو اس وقت شور پکار کر کے یا مقابلہ کر کے چور کو ہٹا لیتے۔ آپس کی رنجش آخر دور ہو ہی جاتی آج نہ سہی کل سہی۔ ہمیشہ کے عذاب و افسوس اور حسرت و تاسف میں تو نہ پڑتے۔ پس امام ہمام کی دور اندیش نظر اسی بات پر تھی کہ اسلامی حکومت کی حمایت و حفاظت میرا فرض ہے اور عدل و انصاف ان لوگوں کا فرض ہے جن کے ہاتھ حکومت ہے۔ اگر وہ اپنا فرض ادا نہیں کرتے تو میں ان کی وجہ سے اپنے فرض کی ادائیگی میں میں کیوں قاصر رہوں ؟
امام نووی نے اس حدیث کی شرح میں خلفاء اسلام کی خیر خواہی میں ان امور کو بھی شمار کیا ہے۔
وترک الخروج علیہم و تالف قلوب الناس لطاعتہم
’’کہ ان پر چڑہائی نہ کی جائے اور لوگوں کے دلوں کو ان کی اطاعت کی طرف مائل کیا جائے۔‘‘
پھر اس کے بعد امام خطابی سے نقل کیا ہے۔
ومن النصیحتہ لہم الصلوۃ خلفہم و الجہاد معھم واداء الصدقات الیھم وترک الخروج بالسیف علیہم اذا ظھر منہم حیف او سوء عشرۃ (شرح صحیح مسلم للنووی جلد اول ص۵۴)
’’خلفائے مسلمین کی خیر خواہی میں سے ہے ان کے پیچھے نماز ادا کرنا۔ اور ان کی ماتحتی و معیت میں جہاد کرنا اور ان کو زکوٰۃ و صدقات کا (اسلامی خدمات کے
|