لئے) ادا کرنا۔ اور جب ان سے کچھ بے انصافی اور بدنظمی ظاہر ہو تو اس وقت بھی ان پر تلوار سے چڑھائی کرنے سے رکے رہنا۔
غرض شیخ الاسلام پکے موحد‘ سچے دیندار تھے۔ جن کے جذبات کی نرم و گرم کیفیت شریعت کی ماتحتی میں تھی۔ جب کوئی والئے حکومت کوئی خلاف شرع کام کرتا تو یہ اس کو نصیحت کرتے‘ جس سے اس کو چڑ آتی اور بہانہ طلب کر کے آپ کو قید کر دیتا۔ لیکن آپ تھے کہ جب سلطنت اسلامی پر کسی غیر کا سایہ بھی دیکھتے تو اپنا فرض ایمانی سمجھ کر حمایت کو کھڑے ہو جاتے کیونکہ اسلامی حکومت کی نصرت و حمایت شرعاً واجب ہے اگرچہ والیان حکومت ظالم و فاسق ہوں ۔
پس حضرت شیخ الاسلام سلطنت اسلامی کی نصرت واجب سمجھتے تھے۔ اس وجہ سے کہ یہ خدا اور اس کے رسول کا حکم ہے نہ اس وجہ سے کہ ان کے وظیفہ خوار ہوں تو کریں ورنہ دست کش رہیں تعس عبد الدرھم ان اعطی رضی وان لم یعط سخط اس طرح ان علماء کی خیر خواہی کو بھی سمجھ لیجئے جو حکام کے پاس شکایتیں کر کر کے آپ کو قید کروا دیتے تھے بلکہ آپ کے خون کے پیاسے تھے‘ ان کی خیر خواہی بھی اسی حدیث کی رو سے وہ اپنا فرض جانتے تھے۔
آپ کا بار بار جہاد میں شریک ہونا تو سلطنت اسلامیہ اور عامہ مسلمین کی ہمدردی اور خیر خواہی کی مثال ہے۔ اب خاص ان لوگوں کے حق میں آپ کے اخلاق دیکھئے جو ان کی چغلیاں کر کر کے زنداں میں بھیجواتے تھے کہ جب شیخ الاسلام کو موقع ملا تو باوجود اس کے کہ خود سلطان والا شان نے آپ سے آپ کے دشمنوں کے قتل کی نسبت مشورہ کیا تو آپ نے اس کو اس سے روکا‘ چنانچہ علامہ صلاح الدین کتبی فرماتے ہیں ۔
ثم توجھہ الی مصر واجتماعہ بالسلطان فی مجلس حفل فیہ القضاۃ واعیان الامراء واکرامہ لہ اکراما عظیما ومشاورتہ فی قتل بعض اعدائہ و امتناع الشیخ من ذلک (فوات الوفیات ص۴۰ جلد اول)
’’پھر آپ کا مصر کی طرف واپس جانا‘ اور سلطان کے ساتھ ایک مجلس میں
|