جمع ہونا جس میں دربار کے قاضی اور بڑے بڑے حکام جمع تھے اور سلطان کا آپ کی نہایت تعظیم کرنا اور آپ سے آپ کے بعض دشمنوں کے قتل کر دینے کا مشورہ کرنا اور حضرت شیخ الاسلام کا سلطان کو ایسا مشورہ نہ دینا‘ یہ سب باتیں ہیں کہ ان کے ذکر سے کئی جلدیں لکھی جا سکتی ہیں ۔‘‘
اس میں حضرت شیخ انبیاء علیہم اسلام کے قدم بقدم ہیں ۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب اپنے بھائیوں پر اختیار پایا۔ تو آپ نے لا تثریب علیکم الیوم کہہ کر پچھلے ماجرے کو لپیٹ دیا۔[1]اور اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فتح مکہ پر کفار قریش پر قابو پایا اور وہ بطور اسیران جنگ آپ کے سامنے پیش ہوئے تو آپ نے ان کو اذھبوا فانتم الطلقاء[2]کہہ کر معاف کر دیا۔
غرض اہل حدیث اور دیگروں (ہر دو) کی تصویر آپ کے سامنے ہے یہ یہ ہیں اور وہ وہ۔
(۳) ائمہ اہل حدیث میں سے دوسرے بزرگ جن سے لوگ اسی سلوک سے پیش آئے جو عاشقان سنت نبویہ کا خاص حصہ ہے حافظ ابن حزم رحمہ اللہ ہیں آپ کا نام علی اور کنیت ابو محمد ہے اور اپنے جد اعلیٰ حزم کی طرف مضاف ہو کر ابن حزم کے نام سے مشہور ہیں آپ ۳۸۴ھ میں ملک ہسپانیہ (سپین اندلس) کے شہر قرطبہ کارڈوا (CORDVA) میں پیدا ہوئے جمیع علوم عقلیہ و نقلیہ میں درجہ امامت پر پہنچے۔ آپ باتفاق کل ان چند بزرگوں میں سے ہیں جو جمیع فنون عربیہ میں امام ہوئے ہیں ۔ آپ کو ایسے دیگر ائمہ سے ایک خاص امتیاز بھی ہے کہ آپ ملک سپین میں دولت عامریہ کے وزیر سلطنت بھی تھے باوجود اس قدر ریاست اور حکومت کے نہایت درجہ کے عابد‘ زاہد اور متواضع و متقی تھے۔ چونکہ طبیعت میں آزادی اور طبع میں جولانی بہت تھی اس لئے اپنی تحقیقات سے کام لیتے اور ملکہ خدا داد کی بے قدری و ناشکری نہیں کرتے تھے۔
|