Maktaba Wahhabi

195 - 484
سنت نبوی کے عاشق تھے اور اس پر عمل کرنے میں کسی امام و مجتہد کی پروانہ نہ کرتے تھے اور تقلید کو حرام جانتے تھے۔ چنانچہ اپنے اس مسئلہ کو اپنی کتاب ’’الفصل‘‘ میں مفصل بیان کیا ہے لہٰذا ان علماء نے جو تقلید کے پابند تھے۔ آپ پر طرح طرح کے الزام تراشنے شروع کئے کہ یہ شخص ائمہ دین کی تحقیر کرتا ہے اور ان کے خلاف چلتا ہے۔ پس ادھر تو عوام کو آپ کے پاس جانے سے روکا اور ادھر سلاطین کو خوف دلایا کہ یہ شخص خطر ناک ہے۔ چنانچہ آپ کو جلا وطن کیا گیا اور آپ موضع لبلہ کے میدان میں ۲۷‘۲۸ شعبان ۴۵۶ھ؁ کو فوت ہو گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔[1] (۴) اسی طرح استاد الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے ہوا کہ آپ نے جب ’’حجتہ اللہ‘‘ اور ’’انصاف‘‘ اور ’’عقد الجید‘‘ میں تقلید و اتباع سنت کے متعلق محققانہ مضامین لکھے اور قرآن مجید اور مؤطا امام مالک کا ترجمہ کر کے لوگوں کو قرآن و حدیث کی طرف رغبت دلائی تو علماء زمانہ کا ایک گروہ آپ کے مخالف ہو گیا۔ آپ کے خلاف مشورے کر کے لوگوں کو آپ کے پاس جانے سے روکا اور آپ کے قتل کے درپے ہو گئے لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کو ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ ہم آپ کے بعض حالات اسی کتاب کے باب ’’ہندوستان اور علم و عمل بالحدیث‘‘ میں بیان کریں گے۔ (۵) ایسا ہی اہل حدیث کے مسلم پیشوا حضرت میاں صاحب مرحوم (شیخنا و شیخ الکل حضرت شمس العلماء سید نذیر حسین صاحب محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ) سے سلوک کیا گیا کہ بوجہ آپ کے تارک تقلید و متبع سنت ہونے کے آپ کو ہر طرح سے ستایا گیا۔ اور ایذا رسانی میں کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا گیا۔ لیکن حضرت میاں صاحب ممدوح نے مخالفین سے کبھی انتقام نہیں لیا۔ بلکہ نہایت صبر و سکون سے اشاعت سنت و درس حدیث میں لگے رہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی زندگی ہی میں علم حدیث اور
Flag Counter