(شرعی سے) اس کا کوئی بھی شاہد نہیں ہے اور قرون سابقہ میں اس پر کوئی بھی عمل نہیں کرتا تھا۔‘‘
(۴) اسی طرح علامہ ابن عابدین جو متاخرین حنفیہ میں بڑے پائے کے عالم ہوئے ہیں شرح در مختار میں فرماتے ہیں ۔
اذا صح الحدیث وکان علی خلاف المذھب عمل بالحدیث ویکون ذلک مذھبہ ولا یخرج مقلدہ من کونہ حنفیا بالعمل بہ فقد صح عنہ انہ قال اذا صح الحدیث فھو مذھبی (شامی جلد اول ص۷۰ مطبوعہ مصر)
’’جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے اور وہ اپنے (تقلیدی) مذہب کے خلاف ہو تو حدیث پر عمل کرے اور وہی اس (امام) کا مذہب ہو گا۔ اور اس حدیث پر عمل کرنے سے امام صاحب کا مقلد حنفی ہونے سے خارج نہیں ہو جائے گا کیونکہ آپ سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو میرا وہی مذہب ہے۔‘‘
(۳) اسی طرح قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمہ اللہ کی تفسیر مظہری میں سے تفسیر جامع البیان کے حاشیہ پر زیر آیت اِتَّخَذُوْا اَحبَارَھُمْ وَرُھُبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہ (پ۔۱۰ سورۃ توبہ) نقل کیا ہے کہ:۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ جب کسی کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور مرفوع حدیث ثابت ہو جائے جو معارضہ سے بھی سلامت ہو اور اس کا ناسخ ظاہر نہ ہو اور فتوی (امام) ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مثلاً اس کے خلاف ہو اور چاروں اماموں میں سے کسی امام کا اس حدیث کے موافق مذہب ہو تو اس شخص پر اس ثابت شدہ حدیث کی پیروی واجب ہے۔ اور اسے اپنے مذہب (تقلیدی) پر جم رہنا اس بات سے نہیں روک سکتا کہ خدا کے سوا ایک دوسرے کو رب بنا لینا لازم نہ آوے (انتہی مترجماً) حاشیہ تفسیر جامع البیان مطبع فاروقی دہلی طبع اول ص۵۳)
|