ازالۂ وہم: اس موقع پر شاید کسی کو یہ وہم گذرے کہ کیا پھر اہلحدیث کے نزدیک شریعت ایک ایسا امر ہے جس میں عقل کو مطلقاً کچھ بھی دخل نہیں ؟ تو اس کا مختصر و قاطع جواب یہ ہے کہ شریعت تو سراسر حکمت ہے۔ لیکن فہم شرع اور وضع و ایجاد شرع میں فرق ہے۔ شرع کی وضع و تقرر وحی ربانی سے ہے۔ جس کے ہم تک پہنچنے کا مدار سمع و روایت پر ہے۔ اور عقل اس کے فہم اور اس کے مطابق اعتقاد کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہے۔ پس فہم کی تو تاکید و ترغیب ہے فافھم چنانچہ فرمایا۔
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ (شوری پ۲۵) وقال ایضا ) كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (ص پ۲۳)
کیا ان کے لئے شریک (اللہ) ہیں ۔ جنہوں نے ان کے لئے دین میں وہ باتیں مقرر کر دی ہیں جن کی اجازت اللہ نے نہیں دی۔ نیز فرمایا (اے پیغمبر!) ہم نے یہ برکت والی کتاب نازل کی ہے۔ تاکہ یہ لوگ اس کی آیتوں میں سوچ کریں اور تاکہ مغز والے لوگ (اس سے) نصیحت پکڑیں ۔
الغرض حنبلی طریق کی بنیاد نصوص قرآنیہ اور ارشادات نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہ پر ہے اور اس کے امام احمد بن حنبل کی طرف منسوب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ افتراق امت کے فتنے اور ہوائے نفسانی و بدعات کے شیوع کے وقت آپ نے اہلسنت کے لئے عقائد ماثورہ یک جا محفوظ کر دئے تھے۔ اور انہی عقائد پر ثابت قدم رہنے اور ابتلاء امتحان[1]مامونی و معتصمی میں استقامت رکھنے کی وجہ سے آپ اور بھی شہرہ آفاق ہو گئے اور امام اھل السنتہ کے لقب سے پکارے جانے لگے تو یہ طریق بھی آپ کی طرف منسوب کیا جانے لگا۔ ورنہ یہ طریق سب سے پہلا اور پرانا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے وقت کا ہے۔ اول اس وجہ سے کہ امام احمد رحمہ اللہ امام اشعری اور امام ماتریدی
|