Maktaba Wahhabi

113 - 484
منکم یعنی سن رکھو! جو حاضر ہیں وہ اپنے بغیر حاضروں کو پہنچا دیں ) اور صحابہ کی عام عادت پائی گئی ہے کہ جو کچھ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا یا آپ کو کرتے دیکھا تھا۔ وہ اس کے بیان و اظہار اور اس کی تبلیغ و اشاعت یا اقتدا و عمل میں ہرگز کوتاہی نہیں کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد بالا کی تعمیل میں اپنے شاگردوں کو جن کو تابعین کہتے ہیں ۔ سارا دین جوں کا توں پہنچا دیا اور اس میں کسی طرح کی کمی بیشی نہ ہونے دی۔ تابعین و اتباع تابعین میں ان اسلامی روایات کے حافظ و ضابط بڑے بڑے ائمہ فن ہوئے جن کی دیانت و وثاقت اور وسعت علم اور قوت حافظہ کا شہرہ تمام اسلامی ممالک میں پھیل گیا تھا۔ اور دور نزدیک کے تمام علم دوست اور دیندار لوگوں نے ان کی علمی و عملی قابلیت کا اقرار کر کے اپنی گردنیں ان کے سامنے جھکا دیں تھیں ۔ مثلا مکہ معظمہ میں عطاء بن ابی رباح اور ان کے شاگرد ابن جریج رومی وغیرہ اور مدینہ منورہ میں ابن شہاب زہری اور ان کے شاگرد امام مالک وغیرہ۔ اور شام میں امام اوزاعی وغیرہ۔ اس لئے جو شخص کسی اعتقاد یا عمل کو اسلامی اور آنحضرت کا تعلیم کردہ قرار دیتا ہو اس پر لازم ہے کہ اس اعتقاد و عمل کی سند ایسے صحیح طریق سے بیان کرے کہ اس کا وجود زمانہ سلف میں بھی پایا جائے اور اسی کا نام روایت ہے ورنہ اس اعتقاد و عمل کے جدید و بدعت ہونے میں کیا کلام؟ حدیث نبوی من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فہورد (مشکوٰۃ) کی بنا اسی پر ہے۔ اہل سنت کے سوا دیگر مذاہب مذکورہ بالا کے پیدا ہونے کی وجہ سے جامع یہی ہے کہ انہوں نے اس طریق و روش کو ملحوظ نہیں رکھا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جماعت صحابہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ گئے تھے۔ بلکہ انہوں نے اپنی رائے و قیاس کو جس کی حقیقت اوہام وو ساوس اور شکوک و شبہات سے زیادہ نہیں ۔ دین میں داخل کیا۔ حالانکہ دین کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے۔ نہ کہ انسانی رائے و قیاس پر۔ اور اسی لئے دین کو خدا کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ورنہ رائے و قیاس کے لحاظ سے اسے خدا کی طرف نسبت کرنا بالکل بے معنی ہے۔
Flag Counter