اپنے مرویات جمع کر دئیے۔ نیز ابوبکر ابن حزم حاکم مدینہ کو لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے جو کچھ ہو اسے دیکھ بھال کر جمع کر لو۔ مشتغلین بالحدیث کی طبعیتیں اس طرف لگ پڑیں اور مختلف علاقوں میں مختلف لوگوں نے کچھ کچھ احادیث کتابی صورت میں لکھیں ۔[1]حتی کہ امام زہری کے لائق شاگرد اور علمائے مدینہ کے وارث و جانشین مشرق و مغرب کے استاد امام مالک رحمہ اللہ مدینہ طیبہ میں خاص مسجد نبوی میں مسند تدریس پر بیٹھے اور تشنگان حدیث کی پیاس بجھانے لگے جس سے ان کی کتاب مؤطا[2] تیار ہوئی اس زمانے کی دیگر تصانیف سب ناپید ہیں صرف ایک مؤطا امام مالک رحمہ اللہ باقی ہے۔ اور آج اسلامی کتب میں قرآن شریف کے بعد سب سے پرانی کتاب یہی ہے (سبحان اللہ اللہ جس کو چاہئے بڑھائے)
مؤطا میں امام مالک رحمہ اللہ نے اہل حجاز کی صحیح صحیح احادیث مرفوعہ لکھیں ۔ اور ان کے ساتھ صحابہ و تابعین وغیرہ کے اقوال و فتاویٰ بھی درج کئے۔ جو اہل مدینہ کے نزدیک معروف تھے اور ان پر ان کا عمل تھا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر مقدمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں ۔
فصنف الامام مالک مؤطا و توخی فیہ القوی من حدیث اھل الحجاز و مزجہ باقوال الصحابۃ وفتاوی التابعین ومن بعدھم[3]
پس امام مالک نے مؤطا تصنیف کیا۔ اور اس میں اہل حجاز (مکہ و مدینہ) کی قوی احادیث جمع کرنے کی کوشش کی۔ اور اس میں اقوال صحابہ اور تابعین اور
|