دوسری دلیل:۔
دوسری دلیل جس سے صاف ثابت ہے کہ زمان وحی میں مدار شریعت صرف خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر تھا اور بعد کے لئے بھی آپ اسی کی تاکید فرما گئے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ رسولہ (مؤطا)
’’میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ چلا ہوں جب تک تم ان کو مضبوط پکڑ رکھو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے اللہ کی کتاب (قران مجید) اور اپنی سنت (طریق عمل)‘‘
اس حدیث سے ہمارا مدعا مہر نیمروز کی طرح ثابت ہے جس پر زیادہ تشریح کی ضرورت نہیں ۔
تیسری دلیل:۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (نساء پ۵)
’’واللہ یہ لوگ ہرگز باایمان نہ ہوں گے جب تک اپنے نزاعات میں (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کو اپنا حکم نہ بنا دیں پھر تیرے فیصلے سے اپنے دل میں ذرہ بھر حرج محسوس نہ کریں (دل سے اور عمل سے) پوری طرح تسلیم کر لیں ۔‘‘
اس آیت میں تین امروں کو نہایت تاکید سے داخل ایمان کیا ہے۔ اول اپنی خصومتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم و منصف قرار دینا اور ظاہر ہے کہ حکم سند ہوا کرتا ہے۔ ورنہ اس کے حکم بنانے کے کیا معنی؟ دوم جو کچھ آپ فیصلہ فرما دیں اسے بدل و جان منظور کر لینا۔ ہم اس امر کو ذرا توضیح سے بیان کرنا چاہتے ہیں ۔ سوم اس فیصلے کو عملی طور پر بجا لانا۔
عام طور پر حکم کے فیصلے کا اثر ظاہری تعمیل کے متعلق ہوتا ہے دل اور زبان سے
|