پے وحی کے آنے اور ان سے جو کچھ سہواً ہو جائے اس پر (جناب باری سے) اعتراض ہونے اور ترک اولے پر تنبیہ ہونے سے (یہ ملکہ) اور پختہ ہو جاتا ہے۔‘‘
رجوع بمطلب:۔ حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال و افعال بھی جن کے متعلق خدا نے قران کریم میں منصوصی حکم نہیں بھیجا۔ تقریر الہی کی مہر و تصدیق سے شریعت الٰہی ہیں اور یہ اس تقریر سے زیادہ مضبوط ہے جو صحابہ کے کسی قول و فعل کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں آئے اور حقیقت میں اس کی تہ میں یہی ’’دست غیبی‘‘ کام کرتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کو اس قول و فعل کی اصلاح مقصود ہوتی جو کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں کیا اور آپ نے اسے برقرار رکھا تو ضرور خدائے تعالیٰ اپنی شریعت کے امین اور اپنے بندوں کے درمیان اپنے سفیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق وحی بھیجتا۔ اس کے نظائر بھی قران و حدیث میں کئی ایک ہیں ۔ پس حدیث کی تیسری قسم یعنی تقریری حدیث بھی اسی آیت کی تقریر میں حدیث قولی و فعلی کے ساتھ دلیل شرعی ثابت ہو گئی۔ والحمد للّٰہ۔
اور علم حدیث میں انہی تینوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جانا گیا ہے یعنی حدیث قولی‘ حدیث فعلی اور حدیث تقریری۔ چنانچہ مقدمہ مشکوۃ میں مرقوم ہے۔
الحدیث فی اصطلاح جمہور المحدثین یطلق علی قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وفعلہ وتقریرہ و معنی التقریر انہ فعل احد او قال شیئا فی حضرتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولم ینکر ولم ینہ عنہ بل سکت وقر رہ۔
جمہور محدثین کی اصطلاح میں لفظ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل و تقریر پر بولا جاتا ہے اور تقریر کے معنی یہ ہیں کہ کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی فعل کیا یا کوئی بات کہی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اسے برا منایا اور نہ اس سے منع کیا بلکہ اس پر خاموش رہے اور (اسے) برقرار رکھا۔
|