إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ (الممتحنہ پ۲۸)
’’(مسلمانو) تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں پیروی (کا) نیک (نمونہ) ہے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے (صاف) کہہ دیا کہ بے شک ہم تم سے اور ان سے جن کو تم خدا کے سوائے پوجتے ہو بیزار ہیں ۔ ہم تمہارے (دین) سے منکر ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور بغض ظاہر ہو چکا ہے یہاں تک کہ تم خدا کو اکیلا کر کے مانو۔ مگر ابراہیم علیہ السلام کے اس قول میں جو اس نے اپنے باپ سے کہا کہ میں تیرے لئے بخشش مانگوں گا اور میں تیرے لئے خدا سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں ۔‘‘
اس کے نظائر قرآن شریف میں متعدد ہیں کہ اللہ تعالی نے بعض امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اصلاحی حکم دیا پیشتر اس کے کہ آپ کا اصلاح کردہ قول یا فعل رواج پائے اور وہی اصلاحی حالت اب امت کے لئے شریعت ہے۔
ازالہ وھم:۔ یہ اصلاح منافی عصمت نہیں بلکہ مثبت عصمت ہے۔ چنانچہ کتب عقائد میں مرقوم ہے کہ عصمت ایک دماغی ملکہ ہے۔ جو
العصمۃ ملکۃ نفسانیۃ تمنع عن الفجور وتتوقف علی العلم بمثالب المعاصی ومناقبا لطاعات وتتاکد فی الانبیاء بتتابع الوحی علی التذکر والاعتراض علی مایصدر عنہم سہوا والعتاب علی ترک الاولٰی۔[1]
’’بدکاری سے روکتا ہے اور گناہوں کی برائیوں اور نیکیوں کی خوبیوں کے جاننے پر موقوف ہے اور انبیاء علیہم السلام میں ان کی یاد دہانی کے لئے پے در
|