ہے ’’اتباع‘‘ (پیروی) فعل میں موافقت کرنے کو اور ’’اطاعت‘‘ (فرمانبرداری) حکم بجا لانے کو کہتے ہیں ۔ چنانچہ گو سالہ پرست یہود کے ذکر میں حضرت ہارون نبی اللہ علیہ السلام کی نسبت ذکر کیا کہ انہوں نے گو سالہ پرست لوگوں سے شروع میں کہہ دیا تھا کہ بھائیو!
وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَاقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي (طہ پ۱۶)
’’تم اس (گو سالہ) پر مفتون ہو گئے ہو۔ حالانکہ تمہارا رب تو وہ ہے جس کی شان ’’رحمن‘‘ ہونا ہے پس تم میری اتباع (پیروی) کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اتباع فعل کے متعلق ہے اور اطاعت امر کے اور چونکہ حدیث نبوی کی اصل تقسیم بھی دوہی طرح پر ہے۔ بعض میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کا ذکر ہے اور بعض میں اقوال کا۔ اس لئے خدائے برحق نے بھی ہر دو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت کو واجب ٹھہرانے کے لئے ہر ایک کے لئے الگ الگ لفظ اتباع و اطاعت فرمایا۔
اس سے باسانی معلوم ہو سکتا ہے کہ اللہ جل شانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فعل و ہر قول کو بلا استثناء و بلا شرط واجب الانقیاد قرار دیتا ہے خواہ اس کے متعلق قران شریف میں منصوصی حکم مذکور خواہ نہ ہو اور اسے بالاستقلال رکن شرع ٹھہراتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ خدا کی شریعت کے امین ہیں اور عصمت آپ کے لئے امر لازم ہے۔ پس جب آپ نے کوئی ایسا امر یا کوئی ایسا فعل کیا جسے خدا نے برقرار رکھا اور اس کی اصلاح نہیں کی تو وہ یقیناً غلطی سے پاک ہے اور خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں کے لئے بطور شرع مقرر کرنا منظور ہے۔ ورنہ خدا تعالی اس کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متنبہ کر کے اس کی اصلاح کر دیتا جیسا کہ جناب ابراہیم علیہ السلام کی اتباع و اقتدا میں فرمایا۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ
|