’’یہ بات ان باتوں میں سے ہے جن کی وجہ سے امام اشعری رحمہ اللہ قابل مدح ہیں کیونکہ اس نے معتزلہ کے فضائح اور ان کے اقوال کے تناقض و فسادات ایسے بیان کئے ہیں کہ کسی دیگر نے نہیں کئے۔ کیونکہ وہ خود بھی انہیں میں کا تھا۔ اور چالیس سال تک ابو علی جبائی (رئیس المعتزلہ) سے علم کلام حاصل کرتا رہا تھا۔ اور بہت ذہین تھا۔ پھر ان کے مذہب سے تائب ہو گیا اور ان کے رد میں تصنیف کرنے لگا۔ اور اس نے صفات الٰہی میں ابن کلاب کے طریق کی تائید کی۔ کیونکہ یہ طریق معتزلوں کی نسبت حق اور سنت کے زیادہ قریب تھا۔ اور امام اشعری اس کے سوا اور علم کا عالم نہیں تھا۔ کیونکہ وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین وغیرھم کے علم میں ماہر نہیں تھا۔‘‘
اگرچہ امام اشعری رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ کے بیان کردہ عقائد کی موافقت میں تمہید مقدمات اور صورت مسائل میں معتزلوں کے سخت مخالف ہو گئے تھے۔ لیکن پھر بھی معتزلوں میں رہ کر علوم عقلیہ میں بہت سی عمر گذارنے اور علم حدیث میں کافی ماہر نہ ہونے کے سبب ان میں کچھ نہ کچھ اعتزالی اثر باقی رہ گیا تھا۔ جس کی وجہ سے امام احمد رحمہ اللہ کی پوری مطابقت نہ رہ سکی۔ چنانچہ شیخ الاسلام ’’منہاج‘‘ میں ایک مسئلہ کے ضمن میں فرماتے ہیں ۔
وھذا من الکلام الذی بقی علی الاشعری من بقایا کلام المعتزلۃ فانہ خالف المعتزلۃ لما رجع عن مذہبہم فی اموالھم التی اشتھر وافیہا بمخالفۃ اھل السنۃ کاثبات الصفات و الرؤیتہ وان القران غیر مخلوق واثبات القدر وغیر ذلک من مقالات اھل سنۃ والحدیث وذکر فی کتاب الابانۃ انہ یقول بما ذکرہ من اھل السنۃ والحدیث وذکر فی الابانۃ انہ یأتم بقول الامام احمد۔[1]
’’اور یہ اس کلام میں سے ہے جو امام اشعری رحمہ اللہ میں معتزلوں کے کلام میں سے رہ گیا۔کیونکہ جب اس نے معتزلوں کے مذہب سے رجوع کیا۔ تو ان کے انہی
|