اور امام شافعی وغیرھم نے جو کچھ لکھا صحیح روایتوں سے لکھا۔ لیکن چونکہ وہ سب کچھ نقلی تھا۔ اس لئے اس سے مریضان عقل کی تسلی نہ ہو سکتی تھی۔ آخر خدائے ذوالجلال کو ایک نیا انقلاب منظور ہوا۔ اور ان سے بھی اسی عقلی طریق سے کام لینے کا وقت آپہنچا۔ تو خواجہ ابو الحسن اسمعیل بن علی الاشعری[1]جو نو واسطوں سے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ صحابی کی اولاد سے تھے۔ اپنے استاد ابو علی جبائی معتزلی سے مختلف ہو کر طریق سنت پر آگئے۔ چونکہ انہوں نے علوم عقلیہ میں تربیت پائی تھی۔ اور مخالفین کے جوابات میں بڑے ماہر تھے۔ اس لئے انہوں نے اہل سنت کے عقائد کو دلائل عقلیہ سے بیان کرنا چاہا اور بہت سی کتابیں بھی تصنیف کیں ۔ جن کی تعداد پچپن تک پہنچتی ہے۔ ان میں وہ عقلی و نقلی طریق کو ممزوج کر کے دیگر مذاہب کی افراط و تفریط کے درمیان درمیان چلے ہیں ۔ مثلا اہل اعتزال صفات ذات کی قدامت سے انکار کرتے کرتے آخر کار صفات ہی سے منکر ہو گئے۔ اور ذات بحت کے قائل ہوئے۔ اور مجسمہ نے اثبات صفات میں ایسا طریق اختیار کیا کہ خدائے بے چون کو بھی ایک جسم بنا دیا۔ اور اس کے لئے اعضاء حقیقی تجویز کئے اعاذنا اللّٰہ منہما۔
امام اشعری نے کہا کہ صفات تو ثابت ہیں ۔ لیکن ان کی کیفیت معلوم نہیں جس طرح کہ اس کی ذات کی حقیقت وکنہ معلوم نہیں لاھو ولا غیرہ [2]کا حاصل یہی ہے۔
بتقاضائے وقت اور بحکم ضرورت اہل سنت نے ایسے شخص کو غنیمت جانا۔ چنانچہ آپ کی تصانیف مقبول عام ہو گئیں ۔ اور آپ کے شاگرد و فیض یاب سینکڑوں ہزاروں تک پہنچ گئے۔ جن میں سے بعض عظیم الشان ائمہ فن ہوئے۔
اشعری طریق کی بنیاد بھی نصوص پر ہے۔ چنانچہ خود خواجہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے اپنی ایک تصنیف ’’کتاب الابانہ‘‘[3] میں بتصریح فرمایا ہے۔ کہ ہم خدائے تعالیٰ عز وجل
|