Maktaba Wahhabi

391 - 484
جانے اور علماء کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو رہا ہے اور (دیکھو) سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے (اور کچھ) قبول نہ کیا جائے۔ اور (علماء کو) چاہئے کہ علم (حدیث) کی اشاعت کریں اور (اس کی) مجالس (منعقد) کریں ۔ تا کہ جو علم نہیں رکھتا وہ تعلیم پائے کیونکہ علم جب تک کہ پوشیدہ نہ ہو جائے ضائع نہیں ہوتا۔ ہم خلیفہ راشد کے اس فرمان پر چند امور تفصیل سے لکھنا چاہتے ہیں ۔ (۱) آپ کا زمانہ خلافت۹۹ھ؁ سے ۱۰۲ھ؁ تک ہے۔ اس وقت تک صحابہ تو چند متبرک نفوس کے سوا سب فوت ہو چکے تھے اور کبار تابعین رحمہ اللہ میں سے بھی اکثر کا انتقال ہو چکا تھا۔ اس سے آپ کو اندیشہ ہوا کہ علماء صحابہ اور کبار تابعین کے وفیات پر اگر کچھ اور زمانہ گزر گیا تو علم حدیث گم ہو جائے گا۔ لہٰذا اس کو ضبط صدر سے ضبط تحریر میں لے آنا چاہئے۔ آپ کا یہ اندیشہ بالکل اسی طرح کا ہے جس طرح خلافت صدیقی میں مسیلمہ کذاب کی جنگ میں بہت سے حفاظ قرآن شریف شہید ہو گئے۔ تو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر آئندہ اسی طرح جنگوں میں حفاظ قرآن شہید ہوتے گئے تو قرآن مجید اکثر گم ہو جائے گا۔ پس قرآن شریف کو مکتوبی صورت میں یکجا کر دینا چاہئے۔[1] نیز یہ اسی طرح کا ہے۔ جس طرح خلافت عثمانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب سر صحابی حضرت حذیفہ بن یمان نے سفر عراق سے واپس آکر حضرت ذوالنورین سے کہا کہ ان لوگوں کے املائے قرآن میں کئی ایک غلطیاں ہیں ۔ آپ اس کا تدارک کیجئے تا کہ امت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والتحیہ) میں کتاب اللہ کے متعلق اہل کتاب کا سا اختلاف نہ ہو جائے۔ اس پر خلیفہ ثالث حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے صحیفہ ابی بکر کی نقلیں ایک مقررہ
Flag Counter