Maktaba Wahhabi

230 - 484
میں مسلمانوں میں یا جمہور مجتہدین میں اختلاف نہیں ہے۔ سوائے صاحب شرع کے کسی کی پیروی نہیں کرتے تھے اور وضو اور غسل اور نماز اور زکوٰۃ کا طریق اپنے باپ دادؤں اور اپنے شہر کے معلموں سے سیکھ لیتے تھے۔ پس اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ اور جب ان کو کوئی واقعہ پیش آجاتا تھا۔ تو بغیر تعین کسی خاص مذہب کے جس مفتی کو پاتے اس سے حکم (شرع) دریافت کر لیتے تھے۔ اور خاص لوگوں کی یہ بات تھی کہ ان میں سے اہل حدیث تو حدیث (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مشتعل ہوتے تھے۔ پس ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خالص حدیثیں یا صحابہ رضی اللہ عنہ کے ایسے خالص آثار مل جاتے جن کے ہوتے وہ اس مسئلہ میں کسی اور شے کے محتاج نہ رہتے یا تو وہ حدیث مشہور ہوتی ہے۔ یا ایسی صحیح جس پر بعض فقہاء نے عمل کیا ہوتا اور اس کو ترک کرنے والے کا کوئی عذر باقی نہ رہتا یا جمہور صحابہ کے وہ اقوال جو ایک دوسرے کے موید ہوں جن کی مخالفت مستحسن نہیں ۔ پس اگر وہ اہل حدیث اس مسئلہ میں کوئی ایسی روایت نہ پاتا جس سے اس کا دل مطمئن ہو جائے۔ بوجہ تعارض نقل کے اور ترجیح کی وجہ واضح نہ ہونے اور اسی طرح کسی اور وجہ سے تو وہ کسی گذشتہ فقیہ (دین کی سمجھ والے) کے کلام کی طرف رجوع کرتا۔ پس اگر اس میں بھی وہ قول پاتا تو جو انسان ان میں سے اوثق ہوتا اسے اختیار کر لیتا۔ برابر تھا کہ اہل مدینہ کا ہو یا اہل کوفہ کا اور جو ان میں سے اہل تخریج تھے وہ ان مسائل میں تخریج کرتے تھے جن میں (امام کی) صراحت نہ پاتے تھے اور اجتہاد فی المذہب کی طرف نسبت کئے جاتے تھے۔ پس کہا جاتا تھا کہ فلاں شافعی ہے اور فلاں حنفی ہے۔ اور کوئی اہل حدیث بوجہ کثرت موافقت کے کسی ایک مذہب کی طرف نسبت کیا جاتا تھا۔ مثلاً امام نسائی اور امام بیہقی کہ یہ دونوں امام شافعی کی طرف منسوب ہیں اور اس زمانہ میں قضاء پر اور افتاء پر صرف مجتہد ہی مقرر ہوتا تھا۔ پھر اس زمانہ کے بعد
Flag Counter