ولا عذر لتارک بہ و اقوال متظاھرۃ لجمہور الصحابۃ مما لا یحسن مخالفتہا فان لم یجد فی المسئلۃ ما یطمئن بہ قلبہ لتعارض النقل وعدم وضوح الترجیح ونحو ذلک رجع الے کلام بعض من مضٰی من الفقہاء فان وجد قولین اختار اوثقہما سواء کان من اھل المدینۃ او من اھل الکوفۃ وکان اھل التخریج منہم یخرجون فیما لا یجدونہ مصرحا ویجتھدون فی المذھب وکان ھؤلاء ینسبون الی مذھب اصحابھم فیقال فلان شافعی و فلان حنفی وکان صاحب الحدیث ایضا قد ینسب الی احد المذھب لکثرۃ الموافقۃ لہ کالنسائی والبیھقی فینسبان الی الشافعی فکان لا یتولی القضاء ولا الافتاء الا مجتہد ولا یسمی الفقیہ الا مجتہد ثم بعد ھذہ القرون کان ناس اخرون ذھبوا یمنیا وشمالا (حجۃ اللہ مطبوعہ مصر جلد اول ص۱۵۲)
جان لو کہ امت محمدیہ کے لوگ چوتھی صدی سے پیشتر بعینہ کسی خاص معین مذہب کی تقلید پر جمع نہیں تھے (شیخ) ابو طالب مکی رحمہ اللہ (اپنی کتاب) ’’قوت القلوب‘‘ میں کہتے ہیں کہ کتب (فقہ) اور مجموعہائے (فتاویٰ) سب نئی چیزیں ہیں ۔ اور (احکام میں ) دوسرے لوگوں کے فتووں کو نقل کر دینا اور کسی ایک (امام) کے مذہب پر فتوی دینا اور ہر امر میں اسی کے مذہب کے مطابق دین کو سمجھنا قدیم ایام یعنی پہلی اور دوسری صدی کے لوگ اس آئین پر نہ تھے (انتہی) (شاہ صاحب فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں کہ دو صدیوں کے بعد ان میں کسی قدر تخریج شروع ہوئی مگر چوتھی صدی کے لوگ کسی خاص مذہب کی تقلید پر اور اسی کے مطابق دین میں فقاہت حاصل کرنے پر اور اسی قول کو نقل کرنے پر مجتمع نہ تھے جیسا کہ پڑتال کرنے سے ظاہر ہے۔ بلکہ ان میں علماء بھی تھے اور عامیوں کی یہ بات تھی کہ وہ اجماعی مسائل میں جن
|