کنزالعمال اور جامع الصغیر (للسیوطی) یہ سب کتابیں شاہ صاحب سے پڑھنے کے علاوہ تیرہ برس کی مدت مدید تک شب و روز ان کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہوتے رہے ابتدا میں ساتھ آٹھ برس صرف صرف و نحو‘ معانی کا درس دیا۔
عقد نکاح: دہلی پہنچنے سے چھٹے سال ۱۲۴۸ھ میں جب کہ آپ شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ سے اکتساب فیض کر رہے تھے۔ اپنے نہایت شفیق استاد سید عبدالخالق کی صاحبزادی سے عقد نکاح کیا۔ اس شادی کے کفیل و مہتمم خود شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ اور ان کے برادر خود شاہ محمد یعقوب رحمہ اللہ تھے۔
جس وقت شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ نے ۱۲۵۸ھ میں ہندوستان سے مکہ معظمہ کو ہجرت کی تو شاہ صاحب موصوف کا واقعی اور حقیقی جانشین اور شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز رحمہا اللہ کے مسند درس کا مالک مولانا سید نذیر حسین کے سوا اور کوئی نہ ہو سکا۔
شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے خاندان کے سردار کو دلی والے میاں صاحب کہا کرتے تھے چنانچہ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ اور ان کے بعد شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ کو لوگ میاں صاحب کہتے تھے۔ جب شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ ہجرت کر کے مکہ معظمہ چلے گئے اور ان کی جگہ ان کے روحانی فرزند مولانا سید نذیر حسین علیہ الرحمتہ نے لی اور مسند درس و ارشاد پر متمکن ہوئے تو ان کو بھی لوگوں نے میاں صاحب ہی کے نام سے پکارا کیونکہ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی اولاد صلبی میں سے کوئی باقی نہ رہا تھا۔
علم حدیث کی خدمت: علم حدیث آپ کا خاص فن تھا۔ اس فن کی ترویج چار دانگ ہندوستان میں جیسی کچھ آپ کے ذریعہ سے ہوئی کسی فرد واحد کی کوشش نہیں کر سکتی۔
فنون متداولہ درسیہ میں کوئی فن ایسا نہیں تھا جس میں آپ استعداد کامل نہ رکھتے ہوں ۔ آپ علم فقہ میں عدیم النظیر سمجھے جاتے تھے۔ سر سید احمد خاں مرحوم نے اپنی کتاب آثار الصنادید میں میاں صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ اس کی تصریح کی ہے۔
|