۱۲۳۷ھ میں آپ پٹنہ سے دہلی کی جانب اپنے رفیق مولوی امداد علی صاحب کے ساتھ روانہ ہوئے۔ رستے میں غازی پور میں قیام کیا اور کچھ ابتدائی کتابیں مولوی احمد علی صاحب چڑیا کوٹی سے پڑھیں ۔ صرف و نحو کی ابتدائی تعلیم علماء الہ آباد سے حاصل کی اور ساتھ آٹھ ماہ وہاں قیام کیا۔ آخر آہستہ آہستہ راہ بے راہ سفر کرتے۱۳رجب ۱۲۴۳ھ بدھ کے روز دہلی پہنچے۔ پہلے مفتی شجاع الدین صاحب کے مکان پر ٹھیرے۔ دس پندرہ روز بعد پنجابی کٹرہ کی مسجد اورنگ آبادی میں مولوی عبدالخالق صاحب (المتوفی ۱۲۶۱ھ) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہاں پر بہ نسبت دیگر علوم درسیہ کے دینیات کی طرف زیادہ توجہ تھی۔
تعلیم: پٹنہ میں آپ نے ترجمہ قرآن و ترجمہ مشکوٰۃ پڑھ لیا تھا۔ اس لئے علم دین کا خیال زیادہ تھا۔ سو عربی زبان میں مہارت حاصل کرنے کے لئے مولانا عبدالخالق سے کافیہ کا سبق شروع کیا اور کئی کتابیں پڑھیں ۔
آپ کے دیگر اساتذہ:
(۲) مولانا اخوند شیر محمد قند ہاری المتوفی ۱۲۵۷ھ
(۳) مولانا جلال الدین ہروی۔ ایک معقولی بزرگ تھے۔
(۴) مولوی کرامت علی صاحب اسرائیلی۔
(۵) مولوی محمد بخش صاحب عرف تربیت خاں ۔ علوم ریاضیہ و فلسفہ میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ کتب متقدمین پر نہایت وسیع نظر تھی۔
(۶) مولانا عبدالقادر صاحب رامپوری۔
(۷) ملا محمد سعید صاحب پشاوری۔
(۸) مولوی حکیم نیاز احمد صاحب سہسوانی جو بڑے عالم اور عامل بالحدیث تھے۔
رجب ۱۲۴۳ھ سے آخر ۱۲۴۶ھ تک قریبا۲؍۳۱ سال کے عرصہ میں تمام علوم رسمیہ سے فارغ ہو کر ہمہ تن تفسیر و حدیث و فقہ کی تحصیل میں مصروف ہو گئے۔ اور اس مقصد کے لئے شاہ محمد اسحاق رحمہ اللہ کی درس گاہ کا رخ کیا۔ صحاح ستہ‘ جلالین‘ بیضاوی‘
|